اسلام دین معاملات ہے(7)۔ شمس جیلانی

ہم گزشتہ قسط میں لڑکیوں کے حقوق پر بات کر رہے تھے اور یہاں تک پہنچے تھے کہ حضور ﷺ اپنی صاحبزادی کو بے انتہا عزت دیتے جب وہ کا شانہ نبوتﷺ میں داخل ہو تیں تھیں تو آگے بڑھ کر پزیرائی فرما تے فرماتے اور جب رخصت ہوتیں تو بھی دروازے تک چھوڑنے جاتے ۔ چونکہ حضور ﷺ کا اتباع کرنے کا حکم قرآن میں بار بار آیا ہے اور احادیث میں اس کا بہت سی جگہ ثواب بھی بتایا گیا ہے جو کہ ہم آگے چل کرتبا ئیں گے یہ وہ مفت کا انعام ہے جو ہم ذراسی محنت کرنے سے حاصل کر سکتے ہیں ۔ مگر ہماری بد قسمتی ہے کہ نہیں کرتے ہیں جبکہ ان بیچاریوں کاوراثت میں جو حصہ اللہ سبحانہ تعالیٰ مقرر فرما دیا ہے وہ بھی انہیں نہیں دیتے اور کسی نہ کسی طرح ان سے ہتھیا لیتے ہیں ۔ مثلاً یہ کہہ کر اگر تم حصہ لوگی تو ہم سے تمہارے تعلقات ختم ہو جائیں گے ،ادھر اگر اس کا شوہر یا سسرالی لالچی ہوئے اور انہوں نے شادی ہی یہ سوچ کی تھی کہ اس کے حصہ میں زمین ملے گی جو پاکستان میں بہت اہمیت رکھتی تو ان کا دباوَ الگ اسے برداشت کرنا پڑرہا ہوتا ہے کہ تم اپنا حصہ بھائیوں یا چچا وغیرہ سے کیوں نہیں مانگتیں ۔ اس طرح وہ مخلوق جس کو آپ پچھلی قسط میں پڑھ چکے ہیں یہ کہہ کر باپ کی امانت میں اللہ سبحانہ نے دیا تھا کہ یہ ایک کمزور جان ہے جوکہ ایک کمزور جان سے پیدا ہوئی ہے اس کا اگر تم نے اچھی طرح خیال رکھاتو قیامت تک اللہ سبحانہ تعالیٰ کی نصرت تمہارے ساتھ ہو گی اسے خوش رکھنا جوکہ خوقسمتی سے آپ کے گھر کےدرواز کے اندر داخل ہوئی ہے; آپ کے اسے اپنے لیئے مصیبت سمجھنے کی بنا پرختم ہوجاتی ہے;بجا ئے اس کے ایک حدیث سے یہ رویہ ثابت ہے تو قطعہ رحمی کے گناہ کے مرتکب ہو ں گے ،دوسرے اگر اسے وراثت سے اسے محروم کیا یاکرایا تو جہنم کے حقدار ہونگے ۔ جب کے صلہ رحمی کے با رے میں حدیث یہ بھی ہے کہ رشتوں کو توڑنے والا جہنمی ہے ۔ اور جوڑ نے والے کوایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کی عمر میں اللہ سبحانہ اضافہ فرماتاہے یہاں کرنے والے بہ یک وقت کئی گناہ کے مرتکب ہو ئے ہیں ان کے پاس باقی کیا رہ جاتا ہے جسے لیکر وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونگے ۔ انکا نیک عمل اسے کوئی فا ئدہ نہیں دے سکے گا ۔ اس لیئے کہ اس نے بچی کے حقوق پائمال کیئے ہیں جس کے معاف کر نے کارب نے وعدہ نہیں فرمایا ہے ۔ اورصرف وہی اپنی زندگی میں معاف کر سکتی تھی ۔ جو کہ وہ اپنے ظلم کی وجہ سے نہیں کراسکاتیجہ یہ ہوگا کہ اس کے پلڑا اٹھتا چلا جا ئے گا اور جب سارے نیک اعمال بھی ختم ہوجا ئیں گے باقی کچھ اس کے پاس نہ بچے گا تو اس کے گناہ بھی اس کے کھاتے میں کھاتے میں ڈالدیئے جا ئیں گے ۔ اور وہ ویساہی مفلس ہو جا ئیگا جیسا کہ حضورﷺ نے فرما یا کہ تم جانتے ہو اس دن مفلس کون ہوگا صحابہ کرام;نے جواب دیا کہ اللہ اور اس کا رسول ﷺ بہتر جانتے ہیں فرمایاﷺ وہ جس کے نیک اعمال اس طرح ختم ہو جا ئیں گے;یہاں مولوی صاحب چاہیں کسی فرقے کےکیوں ہو ں ہر گناہ گار کو تسلی دیتے ہیں کہ اللہ بڑا رحیم ہے ۔ جب کہ اس نے رحم کر نے کا بھی ایک قانون بنا یاہوا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ تم لوگوں پر رحم کرو تاکہ تم پر رحم کیا جا ءے یہ کہیں نہیں فرمایا کہ تم ظلم کر وگے تو بھی میں رحم کرونگا;; وہاں یہ فرمایاکہ مجھ سے زیادہ کوئی منصف نہیں ہے، میں انصاف کرونگا اور سب مظلوموں کو ان کا حقدلاوَنگا;;ممکن ہے کہ یہاں بعض سمجدار الٹا سوال کریں کہ ہم نے کونساظلم کیا ہے جبکہ عربی میں ظلم کے معنی موقع محل کے حساب سے بہت مختلف ہوتےہیں ۔ مختصر یہ ہے کہ اللہ سے لے کر مخلوق تک جس کسے بھی حقوق غصب کریگا ادا نہیں کریگا تو یہ فعل ظلم کہلا ئے گا ۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ ہمیں ان گنا ہوں سے محفوظ رکھے جنہیں ہم معمولی سمجھتے ہیں جبکہ وہ نا قابل ِ معافی ہوت ہیں ; اس دن نہ رشوت چلے گی نہ شفارش چلےگی نہ نذر نیاز چلیں گے ۔ اس دن بو لے گا بھی وہی جس کو اجازت ہوگی اورایک آیت میں یہ بھی اللہ تعالیٰ نےفریا یا ہے کہ وہ بات بھی معقول کرے ۔ ہاں ! اگر اس نے دنیا میں اللہ اور سول ﷺ کی بات مان لی ہوتی تو جنت تو کیا لوح قلم تک اس کے تھے مگر موقع وہ اس نے دار عمل میں رہتے ہوئے کھودیا جو اب کبھی واپس نہیں آسکتا ۔ جبکہ وہاں پہنچ کر ہر ایک کو اپنا انجام اپنے نامہ اعمال میں لکھا ہوا مل جا ئےگا ۔

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles, Islam is a religion of affairs. Bookmark the permalink.