ہم نے گزشتہ قسط میں وعدہ کیا تھا کہ ہم چند احادیث بھی اس سلسلہ میں پیش کر یں گے جو کہ حاضر ِ خدمت ہیں۔
(١)مشہور صحابئ رسول ﷺحضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،ایک شخص نےیہ حضورﷺ سے پوچھا کہ بیٹے پر والدین کا کیا حق ہے، تو آپ ﷺنے جواب میں ارشاد فرمایا ،یہ دونوں تیری جنت بھی ہیں اور دوزخ بھی ہیں،یعنی اگر تو ان کے سامنے رحیم اورکریم اور عجزو انکساری کا پیکر بن جا ئے تو تیرے لئےو ہ جنت کا باعث ہیں ورنہ دوزخ کا مستحق ہوگا(مشکوٰۃ شریف)
(2)ر حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ اپنے ماں باپ کا اطاعت شعار و خدمت گزار فرزند، جب ان کی طرف رحمت ومحبت کی نگاہ سےدیکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی لئے ہر نگاہ کے بدلے میںایک حج مبرور کا ثواب عطا فرماتا ہے،صحابۂ کرام نے پوچھا ’’یا رسولﷺاللہ اگرچہ وہ ہر روز سو بار دیکھے؟آپ نے فرمایا!ہاں،اگرچہ وہ سو بار دیکھے،اللہ تعالیٰ بڑا پاک اور بہت بڑا ہے اور اس کے خزانے میں کمی نہیں آتی(مشکوۃ شریف)
(3)حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، اور والدین کی نافرمانی کرنا ،جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا یہ سب گناہِ کبیرہ ہیں ۔
(4)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺنے فرمایا ، کہ تین لوگوں کی بد دعا قبول ہونے میں کوئی شک نہیں ہے ۔مظلوم کی بدعا،مسافر کی بدعا،اور اولاد کے خلاف والدین کی بدعا ۔لہٰذا اولاد کو چاہیے کہ ہمیشہ ایسی حرکت سے پرہیز کرے ،جس کے سبب والدین کو اس کی خلاف بد دعا کرنی پڑے ،اور والدین کوبھی چاہیے کہ حتیٰ المقدور ان پر بد دعا کرنے سے بچے رہیں ۔ورنہ مقبول ہونے پر خود ہی پچھتانا پڑیگا، جیساکہ آج دنیا میں اس کا مشاہدہ کیا جاتاہے۔
(5)حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ والدین کی طرف دیکھنا عبادت ہے ۔کعبہ کی طرف دیکھناعبادت ہے ۔قرآن کی طرف دیکھنا عبادت ہے ۔جس بھائی کے لیے اللہ کے لیے محبت ہو اس پر نظر ڈالنا عبادت ہے۔
(6)ایک دوسری حدیث یہ بھی ہے کہ اگر کوئی کسی صرف اللہ کے لیئے کسی سے محبت کرتا تو اللہ بھی اس کی طرف محبت کی نگا ہ سے دیکھتا ہے۔
(7)جو والدین کو ناراض کرے ان کے حقوق کوادانہ کرے ۔ان کے بارے میں حضورﷺ فرماتے ہیں ’’تین افراد ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے فر ض کو، اور نہ نفلوں کو قبول کرتاہے ماں باپ کو ایذادینے والا ۔اور صدقہ دے کر احسان جتلانے والا ،اور تقدیر کا جھٹلانے والا ۔
ماں کا حق باپ کے حق پر مقدم ہے :
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا،پوچھنے لگا !اے اللہ کے رسولﷺ سب سے زیادہ کس کا حق ہے؟کہ اس کے سا تھ حسن و سلوک کروں ۔آپ نے فرما یا تیری ماں کا ،پوچھا، پھر کس کا، آپ نے فرما یا تیری ما ں، پوچھا، پھر کس کا ؟آپ نے فرمایا تیری ماں کا۔(مسلم شریف)
کیوں کہ حمل وضع حمل ،اور دودھ پلانے کی شفقت اور صعوبت صرف ما ں اٹھاتی ہے باپ نہیں اٹھاتا ،اس وجہ سے ما ں کا حق زیادہ ہے۔
اولاد پر والدین کے حقوق بعد وفات اسلام کی تعلیمات میں جہا ں بار بار تاکید سنایا گیا کہ دنیا وی زندگی میں والدین کے ساتھ حسن و سلوک کریں اور دوسری طرف یہ درس بھی دیا کہ وہ دنیا سے چلے جائیں تو ان کے ساتھ حسن و سلوک کرو۔ان کے کی لئے ہمیشہ دعاء و استغفار کرو،صدقہ و خیرات واعمال صالحہ کا ثواب انہیں پہنچاتے رہو،
ہا ئے افسوس !آج معاشرے میں بہت ساری برائیاں جنم لے رہی ہیں ،جس کے نتیجے میں ہمارے اخلاقی زندگی کی بنیاد یں کھوکھلی ہو چکی ہیں مخلوط خاندانوں میں رشتوں کا تقدس بری طرح پا مال ہو رہا ہے باپ جب تک کماتا ہے، اولاد والدین کی خدمت کو اپنا فرض سمجھتی ہے مگر جیسے ہی ملازمت سے فراغت کے بعد گھر آتا ہے ،تو اسے بیکار اور فالتو تصور کیا جانے لگتا ہے ،ما ں باپ کا وجود کتنی بڑی نعمت ہے اس کی قدر وہیں جانتے ہیں جو اس نعمت سے محروم ہے ،اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں والدین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ہر گناہ کے بدلے میں عزاب اور ہر جرم کی گرفت کو موخر کیا جا سکتا ہے مگر ماں اور باپ کی نا فرمانی ایسا سخت گناہ ہے اسکا مواخذہ مرنے سے پہلے کرلیا جاتا ہے(الادب المفرد ، جس طرح لڑکیوں کا مسئلہ ہے اور ورثہ ان کے حصہ کو ہتھیا لیتے ہیں اسی طرح۔والدین کو ہتھیا نے کے نئے نئے راستےتلاش کیئے جا رہے ہیں خاس طر سے جن یورپین ملکو ں میں جن کے بیٹے رہہتے ہیں وہ ان پر بہت تیزی عمل کر رہے ہیں باپ یہ سو چ بھی نہیں سکتا کہ اس کا بیٹا اسے ڈس لے گا؟آپ تلاش کریں گے تو یہاں ایسے واقعات بہت سے مل جا ئیں گے۔ ایک شخص کا اکلوتہ بیٹاکنیڈ میں تھا۔ اس کی بیوی کا انتقال ہوگیا بیٹا عزر خواہی کے لیئےآ یا اور اس نے والد سے کہا کہ آپ یہاں اکیلے کیسے ر ہیں گے ۤپ کی دیکھ بھال کون کریگا بہتر کہ آپ بھی میرے ساتھ چلیں وہاں بہت بوڑھوں کے لیئے بہت سی سہولتیں ہیں ۔خاص طورپر علاج معالجے کی جو اس زمانے واقعی بہت تھیں لوگوں نے انہیں غلط استعمال کیا اب قوانین بدل چکا ہے اور بھی محتاط ہو جا نا چاہیئے۔اس کے والد کے پاس دومکان تھے وہ ایک میں رہتا تھا اور دوسرا کرائے پہ اٹھا ہوا تھابیٹے نے بکوا دیئے اور پیسہ لیکر یہاں ابا کوساتھ لے آیا ابا بڑے خوش تھے کہ بڑا سعادتمند بیٹا اللہ نے دیا؟ یہاں ۤآنے کے بعد اس رقم سے اس نے اپنے نام سےمکان لے لیا کچھ عرصہ ابا آرام سے رہتے رہے÷کہ اس کے بچے چھوٹے تھے بیوی ملازمت کر تی تھی ۔ دادا شوق سے بچوں کو اسلول چھوڑنے جا تے اور اس کے بے بی سٹر کا کام کرنے لگے۔ جب بچے بڑے ہوگئے تو۔ ان سے پہلے تو اوپروالا حصہ خا لی کرایایا پھر آہستہ آہستہ نیچے کا حسہ بھی خالی کرالیا برابر میں سکھوں کا گردوارہ تھا وہ کھانا وہاں کھا لیتے اور جہاں جگہ ملتی سوجاتا؟ ایک دن انہیں میرے پاس میرے ایک دوست لے آئے ۔ میں نے کہا کہ مکان کا تو کچھ نہیں ہوسکتا اس لیئے کہ وہ بیٹےکے نام ہےالبتہ جو پنشن اس کےبنک اکاؤنت جا رہی اور اسے کچھ نہیں مل رہاہے وہ دلوائی جا سکتی ہے۔ مگر ہ چاہتا تھا کہ میرے بیٹے کو نقصان نہ پہنچے؟اس لیئےوہ کوئی عدالتی کا روائی کر نے کو تیار نہ تھا۔ جو صاحب انہیں میرے پاس لیکرآئے تھے میں نے انہیں کہا کہ اس کی ایک تر کیب ہے کہ بیٹے سے کہو کہ کیس میرے پاس پہنچ گیا ہے لہذا بہتر ہے کہ پیپر اور بنک اکا ٓنٹ اس کو دیدوورنہ تم پکڑے جاؤگے۔ یہ ترکیب کارگر ہوئی اور اسکی پینشن اسے ملنے لگی۔ اس قسم کے کیس بہت ہیں جو والدین حکومت کے سامنے لے جانے کے لیئے تیار نہیں ہوتے ۔ میرا مشورہ ہےکہ رقم بیٹوں دیتے وقت وہ یہ سمججھ کر دیں کہ یہ ہم ان کو تحفہ دے رہے ہیں اور یہ ہم کبھی واپس نہیں لیں گے تو کم از کم تعلقا خراب ہو نے سے بچے رہیں گے اوبچوں کی عاقبت بھی خراب نہیں ہوگی کیونکہ اس قسم کے واقعات آئے دن ہوتے رہتے ہیں۔ دوسریطرف مندرجہ با لا احادیث کی روشنی میں بچوں کو بھی خیال رکھنا چاہیئے کہ جو وہ کہہ رہے ہیں وہی کرنے کی نیت بھی ہے کیونکہ مجبوری کی وجہ نہیں وعدہ پورا نہیں کر سکے اس کے لیئے اللہ کے قوانین دو سرے ہیں؟ مگرجعل سازی کرنے کی صورت میں وہ دوسرے ہیں