اسلام دین معاملات ہے(10)۔ شمس جیلانی

ہم گزشتہ ہفتے اس پر بات کر رہے تھے ۔ کہ بچے کچھ بھی کریں لیکن ماں کی مامتا اور والدکاپیار اور شفقت انہیں کچھ کر نے نہیں دیتا ہے ۔ چونکہ میں 16 سال سینیر سٹیزنس کا کونسلر رہا ہوں قسم قسم کے معاملات میرے سامنے آئے لیکن جب بچوں کے خلاف کاروائی کرنے کی بات آئی تو والدین تیار نہ ہو ئے کہ ان کے خلاف کوئی کاروائی کی جائے اکثر یہ ہوا کہ وہ ایک دفعہ آکر پھر کبھی لوٹ کر نہیں آئے;اب آگے بڑھتے ہیں .

بڑے بھائی اوربہنوں کے حقوق ۔ ۔ عام طورپر مسلمانوں میں یہ رواج عام ہے کہ باپ کے انتقال بعد بڑا بھائی ہی اپنے خاندان کانگراں ہوتا ہے کیونکہ دوسرے بچے چھوٹے ہو تے ہیں ۔ بڑے بھائی پر واجب ہے کہ وہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو باپ جیساپیار دے اور بہن بھائیوں کو بھی چاہیئے کہ وہ بڑے بھائی کا اسی طرح احترام کریں جس طرح وہ والد کاکیا کرتے تھے۔کیونکہ تالی ہمیشہ دونوں ہاتھوں سےبجتی ہے ۔ یکطرفہ معاملات زیادہ عرصے نہیں چلتے بڑے بھائی کو با پ کی یا ماں کی چھوڑی ہوئی جا ئیداد اپنا مال نہیں سمجھنا چاہیئےبجا ئے اس کے خود کو مالک سمجھیں امین سمجھنا چا ہیئے ۔ لہذا خود کو ان کے مال کامحافط سمجھیں اور اس کو بڑھانے کے لیئے جو بھی کوشش کر سکتے ہیں وہ کریں چونکہ اسلام نے انہیں اجازت دے رکھی تو وہ اس میں بقدر ِ ضرورت لے سکتے ہیں لہذا اگر ضرورت مند ہیں تو حسب ضرورت لے لیں۔ ہمارے معاشرے میں بہکانے والے بہت ہوتے ہیں اور وہ بڑے بھائی پر نگاہ رکھتے ہیں چھوٹے بھائیوں کو بہکا تے رہتے ہیں کہ دیکھو! بھائی تمہارے مال پر عیش کر کررہا تمہارے کپڑے پھٹے ہو ئے ہیں یا گندے ہیں ۔ اور اس کے بچے کتنے ٹھاٹ سے رہتے ہیں یہ ایک قدرتی امر ہے کہ جس بچے کی ماں زندہ ہے وہ زیادہ اچھے طرح سے پرورش کرتی ہے ۔ یہاں بھا بی کا کردار درمیان میں آجاتا ہے چاہیں وہ کتنی ہی نیک کیوں نہ ہو اور کتنی بھی ان کی خدمت کرے ماں کا نعم البدل نہیں بن سکتی ؟یہ چھوٹے بہن بھا ئیوں کو بھی سمجھنا چا ہیئے ۔ اور بڑے بھا ئیوں کو بھی چا ہیئے کہ وہ اپنے بارے میں بچوں کے دلوں میں غلط فہمی پیدا نہ ہونے دیں اگر کوئی چیز لائیں تو پہلے انہیں دیں اگر کسی وجہ سے انہیں ملی تو انہیں اس کی وجہ بتا ئیں ۔ کیونکہ بھائی کو باپ کا مقام حاصل تو اسے بھی باپ بن کر ان کی سر پرستی کرنا چا ہیئے ۔ ہر راعی رعیت کا ذمہ دار ہوتا ہے اور رعیت پر بھی کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں ۔ جبکہ شرعاً بھابی ان کی خد مت کرنے کی پابند نہیں ہے البتہ انسانیت اس پر وہی ذمہ داریا ں ڈالتی ہےاگر وہ ادا کر رہی تو احسان کر رہی ہے اسے محسنہ سمجھیں اس طرح بات بنی رہتی ہے اور تعلقات جلد نہیں ٹوٹتے اگر معاملہ برعکس ہے بڑا بھائی ان کے حقوق ادا نہ کرے پھر تو بھابی کے کرنے کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا اور گھر بگڑ جا تے ہیں۔ کیونکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ انسان بھوکا تو رہ سکتا ہے لیکن بغیر انصاف کے نہیں رہ سکتا;ِ یہ حدیث مشکوٰۃ شریف میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ بڑے بھائی کا ویسا ہی حق بڑے بھائی کا چھوٹے بھائیوں اور بہنوں پر ہے جیسے کہ باپ کا تھا اس کا تقاضہ ہے کہ چھوٹے بھائی بہنوں پر اس کا ویسا ہی احترام لازم ہے جیسا کہ وہ باپ کا کرتے تھے ۔ الادب المفرد میں ایک حدیث آئی ہے جس کے راوی حضرت انس بن مالک ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایاکہ جس نے پرورش کی دو یا تین بیٹیوں کی یا دو اور تین بہنوں کی حتیٰ کہ وہ اس سے بخیر و خوبی جدا ہوگئیں (شادی بیاہ) کے بعد یا انتقال کر گئیں تووہ جنت میرے برابر ایسا کھڑا ہوگا جیسے میری یہ دو انگلیاں پھر آپ ﷺ نےانگشت شہادت اور درمیانی انگلی کی طرف اشارہ فرمایا اور مزید فرمایا کہ یہ ہی حکم ایک بیٹی یا بہن کابھی ہے ۔ چونکہ ہمارا معاشرہ مردوں کی برتری کا حامل ہے لہذا اس میں بھابھی کاذکر اس لیئے نہیں ہے کہ اسلام نے اسے ذمہ دار قرار نہیں دیا ہے جبکہ وہ بھائی کی لاءف پاٹنر ہیں وہ نہ سمجھیں کہ وہ ثواب سے محروم رہیں گی ، جب اسلام نیک کام کا مشورہ دینے والے تک کو نیکی کا ثواب دیتا ہے تو یہاں کوئی محسنہ کیسے ثواب سے محروم رہ سکتی ہے ۔ اس نکتہ کو بھا بھی کو بھی سمجھنا چاہیئےاس لیئے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ بڑا منصف ہے ۔

مسلمانوں کے مسلمانوں پر حقوق ۔ قر آن میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کی ہر چیز حرام کردی ہے ۔ اس میں ہر طرح کی اہانت وغیرہ سب شامل ہے ۔ جس کاہر کوئی بھی شخص کلمہ پڑھنے کے بعد حقدار ہوجا تا ہے ۔ جس کا ہمارے یہاں اب بالکل خیال نہیں رکھا جاتا اور اس کی وجہ سے اسلام کی گروتھ رک گئی ہے ۔ مثلا ً اب بھی بہت سی جگہ نومسلم کو نماز تک میں برابر کھڑا نہیں ہونے دیتے حالانکہ وہ پیدا ئشی مسلمانوں سے بہتر ہے کہ اس کے تمام گناہ معاف ہوچکے ہوتے ہیں جیسے ہی وہ ایمان لاتاہےلیکن پیدا ئشی مسلمان ان کے گھر کھانا حرام سمجھتے ہیں، ان کے برابر بیٹھنا گناہ سمجھتے ہیں ۔ جن کی مسلمان ہوئے پشتیں گزر گئیں مگر انہیں پنجاب میں مصلی کہتے ہیں ۔ جبکہ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ مسلمان کے لیئے یہ شر کافی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے کیونکہ مسلمان کی ساری چیزیں اس پر حرام ہیں ۔ اس کی جان اس کا مال اس کی عزت اس کی آبرو ۔ بشمول اس کے عیبوں کا کھولنا اس کی غیبت وغیرہ کرنا ۔ ایک دوسری حدیث میں جس کے راوی ابو ہریرہ; ہی ہیں;۔یہ حدیث ہے کہ مسلمان کے مسلمان پر چھ حقوق ہیں

(1) جب اس سے ملاقات ہو تو سلام کر
(2) جب وہ دعوت کرے تو تو قبول کر
(3) جب تجھ سے خیر خواہی چا ہے خیر خواہی کر
(4) چھینک لے اور وہ الحمد للہ کہے تو یرحمک اللہ کہو
(5) جب بیمار ہو جا ئے عیادت کر
(6) مر جا ئے تو اس کے جنازے ساتھ جا(ترمذی) ایک حدیث تو یہ بھی ہے کہ جو اپنے لیئےچاہے وہ اپنے بھائی کےلیئے بھی چاہ ۔

ایک اور حدیث میں جوحضرت جابر(رض)سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے ارشاد فر مایا کہ جس شخص کو مسلمان کسی ایسے موقع پر ذلیل کر یگا جہاں اس کی ہتک ہوتی ہو اس کی عزت میں کچھ کمی آئے تواللہ اسے ایسے مقام پر ذلیل کریگا جہاں وہ اللہ تعالیٰ کی مدد کا طلب گار ہوگا .>اور جو شخص کسی ایسی جگہ کسی مسلمان کی مدد کریگا اس کی بھلائی ہوتی ہو، تو اللہ ایسے مقام پر اس کی مدد کریگا جہاں اس کو اللہ تعالٰی کی مدد درکار ہو ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ کسی کو جائز نہیں کہ وہ مسلمان سے تین سے زیادہ بات چیت بند رکھے ۔ تین دن گزر جا ئیں تو اسے چاہیئے کہ وہ اس سے جاکر ملے اور اس کو سلام کرے (اگر دوسرے نے سلام کا جواب دیدیا تو دونوں شریک اجر و ثواب ہونگے اگر سلام کا جواب نہ دیا تو سلام کرنےوالا بری الزمہ ہوگاَاس پر قطع تعلق کا گناہ نہیں رہے گا کیونکہ اس نے سلام کرکے پہل کی مگر دوسرے طرف سے ہمت افزائی نہیں ہوئی ۔ ایک دوسری حدیث میں یہ بھی ہے تعلق توڑنے والے سے تعلق جوڑنے والا بہتر ہے کوئی اگر تم سے تعلعق توڑے تو تم اس سے جوڑو، جوڑنے۔ ( باقی آئندہ)

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Islam is a religion of affairs. Bookmark the permalink.