ہم گزشتہ مضمون میں خاندان پر بات کرتے یہاں تک پہنچے تھے۔ کہ ماں کے حقوق سب سے زیادہ ہیں اس لئیے کہ وہ جو خدمات انجام دیتی ہے جس درد اور مرا حل سے گزرتی ہے وہ کوئی اور رشتہ دار نہیں گزرتا۔اب آگے بڑھتے ہیں اس سے رشتے سے جو رشتے وجود میں آتے ہیں وہ رحمی رشتہ کہلاتے ہیں چاہیں وہ ماں کی طرف ہوں والد کی طرف ہوں یا بیوی طرف سے ہوں، ان کا خیال رکھنے والاجنتی ہے اور ان سے رشتے توڑنے والاجہنمی ہےجس پر قرآن میں لعنت بھی کی گئی ہے۔میں نے ایک مرتبہ ایک مفتی صاحب کو ٹی وی پر یہ فرماتے ہوئے سنا کہ سسرالی رشتہ داروں کے ساتھ سلوک کر نے کا کوئی حکم نہیں ہے؟جو کہ ایک خاتون کے سوال جواب میں جواب میں تھا۔ انہوں نے پوچھا تھا کہ میرا شوہر میری والدہ کا احترام نہیں کرتا ہے اس کے لیئے کیا حکم ہے؟اس پر میں تفصیلاً بات کرنے سے پہلے۔ ہر عقلمند مسلمان سےیہ سوال پوچھتا ہوں۔ اگر بیوی کے رشتہ داروں یا ماں کے رشتہ داروں اچھا نہیں رکھیں گے! توانکے اپنے نرشتہ داروں سے ان کا سلوک اچھا کیسے ہو سکتا ہے۔یہ ممکن ہی نہیں ہے؟ آپ کو ان تمام زوجین کے رشتوں کا یکساں احترام کر نا پڑیگا تب بات بنے گی۔کیونکہ تالی ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے بچتی ہے ایک سے نہیں بجائی جا سکتی۔ اسی لئے نکاح کے خطبہ مسنونہ میں ال الارحام والی آیت پڑھی جاتی ہے کہ اب آپ کی نئی زندگی شروع ہو رہی ہے ہیں۔لہذا آپ آئندہ نئے رشتوں کا بھی خیال رکھیں اور اللہ سبحانہ تعالیٰ نے جہاں قرآن میں اپنے بے انتہاں احسانات کا ذکر فرمایا ہے وہیں یہ بھی ذکر کیا ہے کہ ہم نے تمہیں سسرالی رشتہ دار عطا فرما ئے۔ تاکہ ان کے ساتھ بھلا ئی کا برتاؤ کرو؟ جس کا ہمارے یہاں بہت کم خیال رکھا جاتا ہے ذرا ذراسی بات پر شوہر صاحب حکم فرمادیتے ہیں کہ تم آج سے اپنے میکے نہیں جا ؤگی! انہوں نے میری بے عزتی کی ہے۔ مثلاً تمہاری چھوٹی بہن نے اپنے بڑے بھائی کو تو چائے کا کپ پہلے دیدیا اورمجھے بعد میں دیا پھر اسی قسم کی معمولی دوسری شکایات پیدا ہونا شروع ہوجا تی ہیں اور تلخی بڑھتی رہتی ہے اور طلاق پر جا کر ختم ہوتی ۔ جس کا روز بروز تناسب بڑھتا جارہا جو کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کےنزدیک جائز افعال میں سے سب سے زیادہ مکروہ فعل ہے۔ جبکہ بات اتنی سی تھی کہ اس نے یہ قصد اً نہیں کیاتھا؟ کیونکہ آپ کا یہاں رشتہ ہونے سے پہلے اپنے گھر میں عادی تھی اس بات کی کے تقسیم پہلے بڑے بھا ئی سے شروع کی جا ئے ؟کیونکہ اسلام یہ ہی کہتا کہ باپ کی عدم موجودگی میں بڑے بھائی کا و یساہی احترام کیا جائے جیسے کہ باپ کیا جاتا ہے؟ ہاں! یہاں پربھا ئی کا کردار یہ ہونا چاہیئے تھاوہ بہن سے کہتے کہ یہ مہمان ہیں پہلے ان سے شروع کروتو کوئی شکایت ہی پیدا نہیں ہوتی؟ہمارے یہاں دیکھا گیا ہے کہ جسے صبر کہتے ہیں وہ روز بروز کم ہوتا جارہا جس کی تلقین اللہ سبحانہ تعالیٰ نے سورہ العصر میں فرمائی ہے جس کے بارے میں امام شافعی کا قول ہے اگر اللہ تعالیٰ یہ ایک سورت نازل فرمادیتے تو بھی کافی تھی۔ جہاں تک اردو میں صبر کے معنی ہیں کہ نقصان پر صبر کرلیں یا کسی کے انتقال وغیرہ پر صبر کرنے کے ہیں جبکہ ہیں عربی میں برداشت کرنے کے بھی ہیں جسے انگریزی میں ٹالرینس کہتے ہیں۔ جبکہ یہاں معاملہ یہ ہے جیسا کہ میں نےپہلے کہا کہ رشتوں کا توڑنے والا جہنمی ہے اور جو ڑ نے والا جنتی ہے۔ سورہ رعد آیت نمبر21 , 25ملا حظہ فرمالیں آپ پر مطلب واضح ہو جا ئے گا۔ یہ حدیث ابتدائی دور کی ہے جس کے راوی حضرت عمروبن عبسہ (رض) ہیں وہ فرماتے ہیں کہ جب حضورﷺ کی بعثت ہوئی تو میں ان کے پاس مکہ معظمہ پہونچا تو میں نے سوال کیا آپ ﷺ کیا ہیں ً“ فرما یا میں نبی ﷺ ہو ں “ میں نے پوچھا اس کے معنی کیا ہیں؟ تو فرما یا کہ میں ﷺلوگوں اللہ کا پیام پہنچاتا ہوں، میں عرض کیا کہ مجھے بتائیے وہ کیا ہے؟۔ تو فرمایاً“ صلہ رحمی کرنے، بتوں کو توڑنے اور اللہ کی توحید اوریکتائی کا پیام دے کر بھیجا ہے، دوسری حدیث یہ ہے کہ حضورﷺ جب مدینہ منورہ پہنچے تو لو گ جوق در جوق ملنے آئے ان میں یہودیوں میں سے سب سے پہلے ایمان لانے والے حضرت عبد للہ بن عبد السلام پہنچے تو وہ ؓفرما تے ہیں کہ اس وقت جو میں سنا تو انہوںﷺ نے فرمایا اے لوگو! سلام کو عام کرو، بھوکوں کو کھانا کھلاؤ اور صلہ رحمی کرو اور راتوں کو جب لوگ سورہے ہوں نمازادا کرو اس طرح آسانی اور سلامتی سے جنت میں داخل ہوجا ؤگے ً ان دو حدیثوں سے مجھے یہ ثابت کر نا مقصود تھا کہ “صلہ رحمی “پر اسلام شروع سے زور دیتا ہواآیاہے۔ جہاں بھی حضور ﷺ بات کی صلہ رحمی کو اہمیت حاصل رہی۔ اس پر اتنی احادیث موجود ہیں جو اس چھوٹے سے مضمون میں سما نہیں سکتیں۔ لہذا ایک وسرے مسئلہ کو زیر بحث لارہا ہوں! بہت سے لوگ یہاں آکر کنفیوژ ہوجاتے ہیں کہ خاندان پر فخر کرنا گناہ ہے۔اور تمیز نہیں کرپاتے کہ یہ دو علیحدہ چیزیں ہیں۔ فخر کرنے کے خلاف یہ حضورﷺ ارشاد ِ عالی ہے کہ جو اپنی تین پشت سے زیادہ اپنے خاندان پر فخر کرے وہ اپنی جگہ جہنم میں بنا لے“ جبکہ یہ وہ فخر ہے جس کو سرکارﷺ نے ممنوع قراردیا وہ یہ تھا جو عربوں میں رائج تھا کہ نسلوں پہلے کی باتوں پر فخر کرتےتھے اور بحث ہی بحث میں شدت آجاتی تھی پھر اسی میں نوبت یہاں تک پہنچتی تھی کہ تلواریں نکل آتی تھیں اور خون خرابے نہ صرف ہوجاتے تھے، بلکہ نسلوں تک چلتے تھے۔ اس کے بر عکس یہاں یہ جاننا اس لیئے ضروری ہے کہ سوال یہ اٹھا کہ زکاۃکس کو دیں کیونکہ اس کے لیئےاللہ سبحانہ تعالیٰ نے پابند کیا ہے کہ پہلی شرط یہ تھی کہ اس کا مسلمان ہونا ضروری ہے دوسرے اس آیت میں ترجیح کی فہرست بھی دی ہوئی جوذوی لا قربا والیتمیٰ وال مساکین و ابنالسبیل وغیرہ ہیں اس سلسلہ میں ایک حدیث پیش کرتا ہوں جس کے راو ی حضرت ابو ہریرہ ؓ ہیں حضورﷺ نے فرمایا لو گو!تمہیں اپنے حسب نسب کا اسقدر علم حاصل کرنا ضروری ہے جس کے ذریعہ رتم اپنے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کر سکومثلاً باپ دا دا اورا جدات اور ان کی اولاد مرد اور عورت انہیں پہچاننا اور ان کے نام یاد رکھنا ہیں۔ یہ یہی ذولار حام کہلاتے ہیں انہیں کے ساتھ صلہ رحمی کا حکم ہے کیونکہ صلہ رحمی کر نے سے قرابت داروں میں محبت پیدا ہوتی ہے اور عمر میں زیادتی ہوتی ہے (مسلم)
چونکہ قطع تعلق اسلام میں حرام ہے لہذا ہر مسلمان پر فرض ہے کے ایسی کوئی بات نہ کرے جس سے تعلقات منقطع ہوں۔ یہاں دوسرے لوگوں کاطریقہ نہیں چلے گاکہ اس نے ایک تھپڑ مارا میں دس ما ردیئے۔ یہاں رشتوں کو ٹورنے سے جوڑنے والابہتر ہے۔ لہذا جو رشتہ نہ رکھنا چاہے تو تم اسے جوڑنے کی ہر ممکن کوشش کرو اگر بول چال بند ہوگئی ہے تو تم تین دن بعد سلام سے ابتدا کرو اگر جواب نہ ملے تو تم قطع رحمی گناہ سے بر ای لذمہ ہو جاؤگے جبکہ سلام کا جواب نہ دینے والا رشتہ توڑ نے والوں میں شامل ہوجا ئے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کوشش ترک کردیں وہ حکم یہ ہے کہ جہاں بھی وہ ملے آپ سلام کریں ممکن ہے اللہ سبحانہ تعالیٰ اسے یدایت دیدے۔ (باقی آئندہ)