اسلام دین معاملات ہے(14)۔ شمس جیلانی

ہم گزشتہ قسط میں ہمسا یہ کے حقوق پر بات کرتے ہوئے یہاں تک پہنچے تھے کہ یورپین ملکوں میں ہمارے بارے میں آہستہ آہستہ خیالات ہمارے موجودہ رویہ کی وجہ سے خراب ہو تے جا رہے ہیں ان میں بہتری لانا بطور سفیر ِ اسلام ہمارا فرض ہے؟ اس کے لیئے ہمیں اپنے رویوں کو بدلنا ہوگا ورنہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کے سامنے قیامت کے دن ہم جواب دہ ہونگے۔ للہ اس نکتہ پرغور کیجئے؟ جب میں یہاں آیا تھا تو بات کچھ اور تھی اب کچھ اور ہے آخرکیوں آپ کو جواب مل جا ئیگا۔ اس سلسلہ میں آپ کو اپنا ایک واقعہ سنا تا ہوں جو شروع دنوں کا ہے کہ میں یہاں کے ایک مال کی پارکنگ لاٹ میں اپنی کار بیک کر رہا تھا، پارکنگ لاٹ سے باہر کار نکالنے کے لئے تو ایک مقامی خاتونے پیچھے سے آکر ٹکر مار دی؟ یہاں کے قانون کے مطابق غلطی ان کی تھی میری نہیں۔ وہ اپنی کار سے اتر کر آئیں اور اپنے کاغذات دیتے ہوئے رونے لگ گئیں میں نے کاغذات واپس کر دئیے اور ان سے کہا کہ مجھے کوئی کلیم وغیرہ نہیں کرنا ہے۔ میں نے اپنا کارڈ انہیں دیااور کہا کہ اپنے شوہر سے کہیں کہ مجھ سے بات کر لیں؟ وہ چلی گئیں جب ان کے شوہر کا فون آیا تو انہوں نے کہا کہ آپ کیا چا ہتے ہیں؟ میں نے کہامیں کچھ نہیں چاہتا، آدمی شریف تھے کہنے لگا آخرآپ کا نقصان تو ہوا ہے؟ میں نے کہا کہ وہ اتنا زیادہ نہیں ہے جو میں برداشت نہ کرسکوں؟ کہنے لگا کیا آپ مسلمان تو نہیں ہیں؟ میں نے کہا آپنے یہ کیسے سمجھا کہ میں مسلمان ہوں؟ تو کہنے لگا آپ کی باتوں سے،میرے دفتر میں بھی ایک مسلمان ہے وہ ایسا ہی ہے ۔دل نے بہت چاہا کے اس نیک شخص کو دیکھوں جو اسلام کا نام بلند کر رہا؟ مگر مجھے اس حدیث نے روکدیا کہ احسان کرنے کے بعد کسی کو شرمندہ کرکے اپنا نیک عمل مت ضائع کرو؟ اس لیئے میں اس سے ملا قات نہیں کر سکا؟ یہ 911 سے پہلے کی بات ہے۔؟ اب سوچئے ہمارا تصور اس سے الٹ کیسے ہوا؟ جواب یہ ہے کہ ہمارے اپنے غلط رویوں سے؟اب آگے بڑھتے ہیں اسلام میں ہمسائیگی کا دائرہ بہت وسیع ہے صرف وہی ہمسایہ نہیں، جو بقول مولوی صاحب کے چالیس چالیس گھر تک چاروں طرف آباد ہیں؟ بلکہ یہ ہر جگہ آپ پر لاگو ہو تا ہے مسلمان ہونے کی وجہ سے جہاں بھی آپ اس وقت موجود ہوں۔ مثلاً سڑک پر چل رہے ہیں وہاں بھی آپ کے آگے ہمسایہ ہے ایک پیچھے ہمسایہ ہے ایک دائیں ہا تھ کا ہمسایہ ہے دوسرا بائیں ہاتھ کا ہمسایہ ہے۔ ان سب کاخیال رکھ کر چلنا پڑیگا؟ یہ نہیں کہ آپ دھکے مارتے اور اپنے لئے زبر دستی راستہ بنا تےگزر جا ئیں۔ یہاں مشکاۃ شریف کی وہ حدیث آپکے آڑے آئیگی کہ حضور ﷺ نے فرما یا کہ “راستوں پر بیٹھنے سے بچواگر بیٹھنے سے باز نہ رہو تو راستے میں بیٹھنے کا حق ادا کرو ” صحابہ کرام(رض) نے پوچھا حضورﷺ راستے کا حق کیا ہے فرمایہ ًآنکھوں کا بند کرنا اور ایذ رسانی سے باز رہنا اور سلام کا جواب دینا اور لوگوں کو مشروع باتوں کا حکم دینا ، غیر مشروع باتوں سے روکنا؟ اس کی تفسیر میں جا ئیں گے تو اس کے معنی بہت وسیع ہیں اس میں پہلا اشارہ تو قر آن کی اس آیت کی طرف ہے کہ اے نبی ﷺ مسلمان مردوں سے کہدیجئے کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور پھر اس کے بعد کی ایک دوسری آیت میں حکم ہے اپنی خواتین سے بھی کہیں کہ وہ اپنی آنکھیں نیچی رکھیں؟ خواتین پر تو عمل درآمدپربہت زور ہےکہ وہ بیچاری صنف نازک سے تعلق رکھتی ہیں، مگر مسلماں مردوں کو چھوٹ ہے جنکو ان سے پہلے حکم ملا تھا؟ رہی ایذارسانی یعنی کو ئی حرکت ایسی نہ ہو جس سے راہ چلنے والوں کو تکلیف ہو اس کا خیال ہم کتنا رکھتے ہیں وہ ہم خود ہی جانتے ہیں۔ پولس والوں نے سارے فٹ پاتھ ٹھیکے پردکانداروں کو دیدیئے ہہں چلنے کی جگہ ہی نہیں چھوڑی ہے کہ وہاں سے کوئی گزر جا ئے موٹرسائیکل اور سائیکل اسٹیند اسی پر بنے ہو ئے ہیں فٹپاتھ دکانداروں کو با قاعدہ الاٹ ہیں اس کی دوسری طرف پانی بیہ رہاہے سڑک پر ٹھیلوں والے اپنی دکانیں لگائے ہوئے ہیں، رہاسلام کرنا نہ وہاں ہم نے دیکھا نہ سنا جس کو پھیلانے کا حکم شروع دن سے اساسِ اسلام میں شامل ہے۔ جبکہ سلام کا ذکر اس حدیث میں اس لیئے ہے کہ حکم یہ ہے کہ وہاں سے گزرنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام کرے اور انکو اس کا جواب دینا ضروری ہے جو کہ ایک مسلماں پر دوسرے مسلمان کا حق ہے؟ ۔ لیکن ہمارے یہاں اس کے برعکس عمل ہوتا ہے۔ اگر کہں لائین لگی ہے تو بیچ میں کوشش کرکے گھس جاتے ہیں؟ اب رہا لو گوں برے کاموں سے روکنا تو اس میں ہم صفر ہیں ہی؟ ہم نے آج تک نہ تو کسی مولوی صاحب کو دیکھا اور نہ ہی کسی تبلغی جماعت والے کو دیکھا کہ وہ منع کریں کہ تم کم کیوں تولتے ہو، جھوٹ کیوں بولتے ہو اور ملاوٹ کیوں کرتے ہو اور کھٹے آمو ں کو میٹھاکہہ کر کیوں بیچتے ہو یہ اور اسی قسم کی سب باتیں حرام ہیں اور کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتیں ہیں۔ اللہ اورتم حضور ﷺ کی بات تو مانتے نہیں انﷺ کے پاس شفاعت کے لیئے کیا منہ لیکر جا ؤگے۔ انہوں نے جبکہ ہمیں ایک حدیث میں متنبہ کیا ہوا ہے کہ ہے کہ میں شفاعت کی ضمانت انکو دیتا ہوں جو میرے تمام احکامات پر عمل کرتے ہیں ان کو نہیں جو کچھ پر عمل کرتے ہوں اور کچھ پر نہیں کرتے ہوں؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles, Islam is a religion of affairs. Bookmark the permalink.