اسلام دین معاملات ہے(15)۔ شمس جیلانی

ہم گزشتہ قسط میں بات کرتے ہوئے یہاں تک پہنچے تھےکہ ہمسائیگی یہاں تک محدود نہیں ہے جیسا مولوی صاحب نے چاروں طرف چالیس گھروں تک محدود کردی ہے۔ یہ ایک لا محدود رشتہ ہے کہ کوئی رشتہ نہ ہوتے ہوئے بھی اسے رشتہ داروں پر بھی ترجیح حاصل ہے۔اگر ہمسایہ رشتہ دار بھی ہے تو رشتہ کی مناصبت سے ذمہ داریوں میں اضافہ ہوتا چلا جا ئے گا؟ اگر اقربیٰ میں سے ہے تو صلہ رحمی کا حقدار بھی ہوجا ئےگا۔ اگر غیر ہے یعنی رشتہ داروں میں سے نہیں ہے۔ اور تین پڑوسی کسی کواچھا کہتے ہیں تو وہ ایک حدیث پاک کے مطابق جنتی ہے۔ اور برا کہتے ہیں تو جہنمی بھی ہوسکتا ہے کیونکہ برا جب ہی کہیں گے کہ اس کے شر سے ہمسایہ محفوظ نہ ہوں۔ دوسری حدیث ہے کہ وہ مومن نہیں جس کے شر سے اس کا ہمسایہ محفوظ نہ ہو ۔اس سلسہ میں آپ کو یہاں تک خیال رکھنا پڑیگا کہ اگر گوشت پکانے جارہے ہیں تو وہ اتنا ہونا چا ہیئے کہ ہمسایہ کے یہاں بھیجا جاسکے اور وہ کسی وجہ کم ہے تو اس کا شوربا بڑھا کر اسے اتنا کرلیں کہ ہمسایہ کو بھی بھیجا جا سکے اگر آپ موسم کا کوئی نیا پھل لا ئے ہیں تو ضروری ہے کہ ہمسایہ کے یہاں بھی بھجوائیں۔ اس کے گھر طرف کھڑکی مت کھولیئے جس سے دھواں اس کو تنگ کرے مکان اتنا اونچا مت بنوائیے جس سے اس کی ہوا رک جا ئے یا دھوپ روک لیں اور اس کا گھر اس وجہ سے بیماریوں کی آماجگاہ بن جا ئے؟ اس کے بعد جو اس کے حقوق ہیں وہ بتائے گئے ہیں؟حضرت معاویہ بن حیدہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہمسایہ کا حق ہے کہ وہ بیمار ہوجا ئے تو اس کی بیمار پرسی کی جا ئے۔ اگر وہ مر جا ئے تو اس کے جنازے کے ساتھ جایا جا ئے۔ اگر وہ ادھار مانگے تو اس کو قرض دے۔اگر وہ ننگا ہے تو اس کو کپڑے پہنا ئے، اگر اسے کوئی خوشی حاصل ہو تو اس کو مبارک باد دے،اگر کوئی مصیبت لاحق ہو تو اس کو تسلی دے اک دوسری حدیث میں یہاںں تک فرمادیا کہ جس کے راوی حضرت انس بن مالک(رض) ہیں۔ کہ حضورﷺ فرمایا کہ ” مجھے اس پرور گار کی قسم کے جس کے قبضے میں میری جان ہےکہ کوئی مسلمان مسلمان نہیں جب تک وہ اپنے ہمسایہ کے لیئے بھی وہی بھلائی نہ چاہے جو اپنے لیئے چاہتا ہے۔ واضح رہے یہ ہر ہمسایہ کے لیئے ہے اگر مسلمان ہے تو اس کے وہ حقوق تو رہینگے ہی اور قریبی عزیز ہے تو اس کے حقوق یا دور کا رشتہ دار ہے وہ بھی بدستور رہیں گے۔ ہم نے پوری کوشش کی ہمسایہ کے حقوق مسلمانوں تک پہنچا سکیں اگر کو ئی کوتاہی رہ گئی تو اللہ سبحانہ تعلیٰ سے معافی کے خواہستگار ہیں۔ اب اس سلسلہ کو ۤآگے بڑھاتے ہیں۔

مریض کی مزاج پرسی۔ حضور ﷺ کا ارشادِ عالی ہے جب کوئی بیمار پڑے تو تم اس کی مزاج پرسی کوجا ؤ اور اسے جلد اچھا ہونے کی نوید دو یعنی اس کی ہمت شکنی مت کرو جیسا کہ ہمارے یہاں کا وطیرہ ہے ؟خصوصاً خواتین میں کہ اگر مزاج پرسی کے لیئے جائیں گی تو ہمت افزائی کرنے کے بجائے یہ کہتی ہوئی سنا ئی دینگی کہ اے! تو تو بڑی کمزور ہوگئی یا کمزور ہوگیا ہےا دیکھو تو بچہ کا منہ نکل ۤآیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ حکم یہ ہے کہ جا ؤ تو اسے تسلی دو بجائے اس کے اس کےدل میں نا امیدی پیدا کرو۔ اور مریض کے پاس تھوڑی دیر بیٹھو زیادہ دیر نہیں۔ خصوصاً جب وہ اسپتال میں ہو تو جتنا کم سے بیٹھا جا سکتا ہے اتنا کم بیٹھو؟ خصوصاً یورپین ملکوں میں اس کو زیادہ اچھا نہیںسمجھا لکن ہمارے یہاں حکم ہے اور خصو ساً جمعہ کے دن عیادت کرنے کا زیادہ ثواب ہے۔

مسکین کے حقوق۔ حضرت انس بن مالک روای ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میری مخلوق میں سے کسی ایسے کی کفالت کی جس کا کوئی کفالت کرنے والانہ ہو! تو ایسے بندے کی کفالت کا میں ذمہ دار ہوں

جانوروں کے حقو ق۔ حضورﷺ نے فرمایا ہر حساس جانور جس کو بھوک پیاس لگتی ہو اس کے کھلانے پلانے میں ثواب ہے یہ حدیث بخاری اور مسلم میں آئی ہے اس میں اس نظریہ کا رد ہوتا ہے جو اس پر کچھ اعتراض کر تے جو مکہ معطمہ مدینہ منورہ میں کبوتروں کو دانہ ڈالتے ہیں ۔ یا گھروں میں اکثر خواتین بچی ہوئی چیزیں ڈالدیتی ہیں اور پرندے ہل جا تے ہیں۔ اور وہ غول کے غول ۤانے لگتے ہیں۔ باقی آئندہ

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles, Islam is a religion of affairs. Bookmark the permalink.