اسلام دین معاملات ہے(17)۔ شمس جیلانی

ہم گزشتہ ہفتہ حاکم اور محکوموں کے حقوق پر بات کررہے تھے۔ اب آگے بڑھتے ہیں۔ حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے یہ فرمایا بادشاہ روئے زمین پرخدا کا سایہ ہوتا ہے۔ خدا کے بندے جو مظلوم ہوں وہ اس کے سایہ میں پناہ لیتے ہیں اگر وہ انصاف کرے تو اس کو ثواب دیا جاتا ہے اور رعیت پر اس شکر ادا کرناوا جب ہے اگر وہ ظلم کرے اور اللہ کی امانت میں خیانت کرے تو بار گناہ اس پر ہے۔ رعیت کو صبر کرنا لازم ہے(بیہقی مشکواۃ) لیکن ایک دوسری حدیث میں حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر اپنے امیرسے کوئی غلطی ہو تو اسے اکیلے میں سمجھاؤ ً جس کی روشنی میں ہم نے مشورہ دیا تھا مسلم ممالک میں رہنے والے تمام مسلمانوں کو کہ بطور مسلمان آپ کا فرض بنتا ہے کہ اس پر عمل کریں اس مشہور حدیث کے تحت کہ“ حضوﷺ نے فرمایا کہ جو تم اپنے لیئے چا ہتے ہو وہی اپنے مسلمان بھا ئی کے لیئے بھی چاہو ً“ لہذا حضوﷺ کے ایک دوسرے فرمان کے مطابق حکمرانوں کو تنہائی میں مشورہ دو کہ وہ دین پر چلیں سچا ئی اختیار کریں بجا ئے اس کے کہ ہر بات میں ہیر پھیر کریں کریں اور خود کو جہنم میں جا نے سے بچا ئیں؟ جبکہ آپکو میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ خود لیڈران کرام کی چکنی چپڑی باتوں میں نہ آئیں تو انشا ء اللہ یہ جو ادبار مسلمان ملکوں پر آیا ہوا ہے وہ بھی ختم ہوجا ئے گا پھر یہ روز روز کے زلزلے اور طوفان سے بھی عوام بچ جا ئینگے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ راضی ہوجا ئے گا،کیونکہ قرآن میں وہ بار بار فرمارہا کہ سال میں،میں جو ایک دو جھٹکے دیتا ہوں وہ اس لیئے کہ یہ توبہ کرلیں! مگر یہ پھر بھی نہیں مانتے؟ جبکہ اسلام کی تعلیمات یہ ہیں کہ اللہ کے حکم کے بغیر کو ئی پتہ بھی نہیں گرتا، وہ ا گر کسی کو فائدہ پہنچانا چاہے تو کوئی روک نہیں سکتا، اور سب مل کے فائدہ پہنچانا چاہیں اور وہ نہ چا ہے تو کوئی اسے کچھ دلا نہیں سکتا۔ اور یہ بھی کہ عزت اورذلت میرے پاس ہے تم کہاں تلاش کرتے پھرتے ہو؟ میں جسے چاہوں اسے عزت دوں اور جسے چاہوں ذلیل کردوں۔ اور ایک مشہور حدیث میں یہ بھی ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دو دفعہ نہیں ڈسا جاتا۔ وطن عزیز کی مثال لے لیجئے! پچھلے پچھتر سال سے عوام ڈسے جا رہے ہیں جو بھی آیا وعدے بہت کر کے آیا مگر پورا ایک بھی نہیں کیسا البتہ دوسروں کو مورد ِ الزام ٹھہراتا رہا کہ میں تو کرنا چاہتا تھا مگر اُس نے نہیں کرنے دیا اِس نے نہیں کرنے دیا؟ جبکہ ملک کے دستور میں لکھا ہوا ہے کہ اس ملک میں حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہوگی۔ تمام قوانین جوکہ غیر اسلامی ہیں دس سال کے اندر اسلامی سانچے میں ڈھال دئے جا ئیں گے؟جس پر آج تک عمل نہیں ہوا کیوں؟ پچھلے دور کو جانے دیجئے کہ داستان طویل۔ اس دور بات کرتے ہیں؟ اس میں روڑے کس نے اٹکا ئے میں اس کی دو مثالیں پیش کرتا ہوں اسلامی دستور کو نافذ کرنے کے لیئے اسلامی کونسل بنا ئی گئی اس نے سودی کاروبار بند کرنے کی سفارش کی اس وقت کے وزیر اعظم اس کے خلاف حکم ِ امتنائی لینے عدالت عالیہ چلے گئے جوکہ اس نے جاری کردیا، اس وقت تو اسے چیلنج کون کرتا کہ ان وزیر اعظم کا دور، دورہ تھا؟ مگر ان کے بعد میں انہوں نے بھی کچھ نہیں کیا جو اس وقت حزب ِ اختلاف میں تھے اور ان کے بعد اقتدار میں آئے۔ مگر کسی نے دوبارہ عدالت سے نظر ثانی کی درخواست تک نہیں کی اور ابھی سودی کاروبار چل رہا ہےرہا ہے۔ دوسری مثال یہ ہے کہ جب اس ملک کو مدینہ منورہ جیسی ریاست بنا نے والی پارٹی بر سرِ اقتدار تھی تو ایک اقلیتی ممبر پارلیمنٹ نے جو سرکاری بنچ پر بیٹھتا تھاپارلیمنٹ میں شراب پر پابندی لگانے کی قرارد اد پیش کردی مگر پاس نہیں ہوسکی؟ اسے روکنے کون آیا کوئی نہیں مگر مسلم اکثریت نےساتھ نہیں اگر دی اگر لیڈر آف دی ہاؤس ساتھ دیتے تو اسے پاس ہونے سے کون روک سکتا تھاجبکہ ا سپیکر انکا تھاصدر بھی انکا تھا؟ یہ مانا کہ صبر اچھی خصلت ہے مگر ہر بات کی کوئی حد بھی ہوتی ہے۔آپ کے پاس جو ووٹ اللہ کی امانت ہے اس کو ایمانداری سے استعمال کیجئے ورنہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کے پاس روز قیامت آپ کی پکڑ ہوگی؟ کیوں؟ اس لیئے کہ اسلام مظلوموں کی مدد کا حکم د یتا ہے ظالموں کی نہیں۔ جبکہ عوام ظالموں کی مدد کرتے چلے آرہے ہیں مظلوموں کی نہیں؟ظالم ہر وہ شخص ہے جو کہ کسی کاحق دبا ئے اور ادا نہ کرے اور مظلوم ہر وہ ہستی ہے جس کے حقوق ادا نہ کیئے جا ئیں۔ پہلے ہمیں یہ دیکھنا چا ہیئے کہ ہم خود بندے تو اللہ کے کہلاتے ہیں اور مسلمان بھی کہلاتے کیااللہ کے حقوق بھی ہم ادا کر رہے ہیں جو اطاعت پر منحصرہیں، کیا اس کی ساری باتیں مانتے ہیں؟ میں اور آپ سب اپنے اپنے گریبانوں میں منہ ڈال کر دیکھیں کیا ہم اس پر پورے اتر تے ہیں یا نہیں؟ جبکہ یہ کلیہ بھی ہے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول بھی کہ عمل کے بغیر ایمان کچھ نہیں اور ایمان کے بغیر عمل کچھ نہیں۔

رہے حکمراں وہ اپنا جواب خود دیں گے۔اس سلسلہ میں بہت سی احادیث ہیں ان میں ان میں سے چند میں یہاں پیش کر دیتا ہوں ۔(١1حضرت طلحہ ؓ بن عبید اللہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے ارشادفرمایا کہ ظالم امیر کی دعا قبول نہیں ہوتی(حاکم) (2 ) وسری حدیث ہے جس کے راوی حضرت ابو ہریرہؓ ہیں کہ حضور ﷺ نے ارشادفرمایا کہ تین شخصوں کا کلمہ بھی قبول نہیں ہوتا ان میں سے ایک وہ حاکم ہے جو رعایا پر ظلم کرے(طبرانی) (3)حضرت معقلؓ راوی ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ بندے کو اللہ تعالیٰ رعیت کی نگہبانی سپرد کرے اور وہ بھلائی کے ساتھ نگہبانی نہ کرے تو وہ بہشت کی خشبو نہ سونگھ پا ئے گا(بخاری، مسلم مشکواۃ)(4)حضرت عائشہ ؓصدیقہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو دعا کرتے سنا کہ“ اے اللہ جس شخص کو میری امت کے کسی امرکا والی اور متصرف بنایا اور وہ میری امت کو مشقت اور مصیبت میں ڈالے ،تو بھی انس کومصیبت اور مشقت ڈال اور جو شخص میری امت پر رحم کرے تو اس پر رحم اور نرمی کر(مسلم و مشکواۃ)۔ باقی آئندہ)

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles, Islam is a religion of affairs. Bookmark the permalink.