میں نے گزشتہ ہفتے لکھا تھا کہ اسلام نے انسانی ہمدردی کے بہت سے راستے بنا دیئے ہیں ان میں النساء کی آیت نمبر 36کا حوالہ دیا تھا۔ جس میں اس بات پر زور ہے کہ جو رشتہ دار جتنا قریب ہو اگر ضرورت مند ہے تو اتنا زیادہ وہ مدد کا مستحق ہے اس میں یہ بتانا بھی ضروری نہیں ہے کہ اس کو زکاۃ سے رقم دیجا رہی تاکہ اس کی عزت ِنفس مجروح نہ ہو۔ پھردے کر احسان جتانا ایسا ہے جیسے کسی چیز کو نالی میں ڈال دیا۔ یہاں اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ خود صاحب ِ نصاب ہیں تو ان کو کچھ نہیں دینا چاہیئے جبکہ زکاۃ بہت تھو ڑے سے مال پر واجب ہوجاتی ہے؟اس گرانی دور میں بہت سے سفید پوش ہیں جو کہ ہاتھ پھیلا کر نہیں ما نگتے اور انکودو وقت کی روٹی ملنا مشکل ہوگیا ہے۔ اسلام نے ایسے لوگوں کے لیئے ہدایت کی ہے ان کو تلاش کر کے دو؟ رہا قرضہ حسنہ اگر رشتہ دار نہیں بھی ہے پڑوسی ہے اس کا بھی حق ہے کہ اگر وہ قرض مانگے اور تمہارے پاس ہو تومنع مت کرو۔ سائل اگر کوئی دروازے پر آجائے اس کو خالی ہاتھ واپس مت کرو،کچھ نہ کچھ ضرور دو نصف کھجور ہی سہی۔ اس کے علاوہ اس دور میں نہ تو ہر گلی میں دکانیں تھیں نہ قدم قدم پر بڑے چھوٹے مال تھے تب عام رواج تھا کہ کسی چیز کی ضرورت ہو تو ہمسایہ سے مانگ لیتے تھے اور جب اپنے پاس آجاتی تو واپس کردیتے تھے۔ اس سلسلہ میں قرآن کی ایک آیت میں ان لوگوں کی مذمت کی گئی ہے جو عاریتاً چیزیں نہیں دیتے۔ اس کے علاوہ ایک مد ایسی تھی جوکہ ختم ہوچکی ہے کہ اگر کوئی اپنے وطن میں کتنا ہی مالدار کیوں نہ ہو اگر وہ مسافر ہے اور اس کے پاس زاد راہ نہیں تو اس کو بھی دینا تھا۔ وہ اب متروک ہوگیا اس لیئے کہ وہ کہیں بھی ہو اور بنک میں اکانٹ ہے تو وہ وہاں سے لے سکتا ہے؟۔ دوسرے ایک چیز وہ بھی تھی۔ کہ مرنے والے قرضہ چھوڑ جاتے تھے کیونکہ موت بتا کر نہیں آتی؟ اگر کوئی مسلمان مقروض تھا اور اللہ کو پیارا ہوجا تا تو حضور ﷺ اس وقت تک نماز جنازہ نہیں پڑھا تے تھے جبتک کہ اس کا قرضہ ادا نہ ہوجائے ،اگر اس نے مال نہیں چھوڑا ہے؟ تو اس کے خاندان والے اداکرتے تھے۔ اب خاندان کی اہمیت ختم ہوگئی۔ اس دور میں ایک ذریعہ بیت المال بھی تھا، تجارت میں نقصا نات ہو تے رہتے تھے اس کی ذمہ داری اسلامی اسٹیٹ پر تھی کہ اگر کوئی کنگال ہوجا ئے تو وہ ادا کرتی تھی؟ جسے آج کی زبان میں بینک کرپسی کہتے ہیں۔ یہ اسلام نے روشناس کرایا تھا اس سے پہلے نہیں تھا۔ اس زمانے میں مسلمان دیانت دار تھے۔ وعدے کے پکے ہوتے تھے۔ وقت پر پہنچا دیتے تھے۔ تو ادھاردینے والے کو خوف نہیں ہوتا۔اب قرضہ لینے والا جب قرضہ لیتا ہے توواپس نہیں کر تا ہے۔ چونکہ اسلام میں ہر معاملہ میں دار مدار نیت پر ہے۔ اگر لینے والے کی نیت دینے کی تھی اگر اور وہ کسی وجہ سے نہیں دے سکا اور موت آگئی تو حدیث ہے کہ اس قرض اللہ سبحانہ تعالیٰ بروز قیامت اپنے پاس اداکردے گا۔ اس کےبرعکس اگر اس کی دینے کی نیت نہیں تھی تو اللہ تعالیٰ فرما ئیگا کہ تو نے کیا سمجھاتھا۔ میں انصاف نہیں کرونگا جو تونے اس نیت سے رقم لی تھی۔اب تواس کی رقم کو ادا کر جبکہ اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہوگا؟ تو اس کی نیکیاں اس کے کھاتے میں منتقل کردی جا ئیں گی،اگر پھر بھی قرضہ نہیں پورا تو اُس کے گناہ اِس کے کھاتے میں ڈالدیئے جا ئیں گے۔چونکہ ایک مسلمان کا مال،عزت اور آبرو دوسرے پر بلا اس کی مرضی کے لینا حرام ہے۔ لہذا جو قرضہ ادا نہ کرنے کی نیت سے قرضہ لیتا ہو تو وہ حرام ہے اور وہ حرام کھانے کا مرتکب ہوگا۔ ایسی صورت میں ایک حدیث ہے کہ جس جسم کی پرورش حرام سے ہوئی ہو وہ اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہوگی جب تک وہ اس کی سزا نہ بھگت لے؟ اس کے باوجود مسلمان ہیر پھیر کرتا ہے۔ آپ جس کسی سے پوچھیں کہ یہ کیا کر ر ہے ہو تمہیں اللہ کا خوف نہیں ہے؟ اسکا جواب ہوگا کہ ہر کلمہ گو جنت میں جا ئیگا؟ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ کلمہ پڑھنے کے معنی کیا ہیں بقول علامہ اقبال ؒ۔یہ شہادت گہہ الفت قدم رکھنا ہے لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا۔ کلمہ کو پڑھتے ہی جہاں تمام اسلامی حقوق اس فرد کو حاصل ہوجاتے، ہیں وہیں اللہ سبحانہ تعالیٰ کے حقوق بھی فوراً لاگو ہوجاتے ہیں؟ وہ ان سب پر عمل کر نیکا پابند ہو جا تا ہے۔ جبکہ لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا۔وہ جانتے اللہ کا حق کیا ہے؟ وہ ہ اس کا اتباع کرنا اور اس نے فرما دیا حضورﷺ سے کہ یہ جو مجھ سے محبت کے دعویدار ہیں ان کہدیجئے کہ آپﷺ کا اتباع کر یں جو اتباع ہے۔ ہم کلمہ تو پڑھتے ہیں مگر پورا اتباع نہ اللہ کا کرتے ہیں نہ حضورﷺ کا۔ جبکہ حضور ﷺ نے فرمادیا کہ میں جنت کی ضمانت صرف ان کو دیتا ہوں جو اسلام کے تمام احکامات مانتے ہیں؟ ان کو نہیں جو کچھ کو مانتے ہیں اور کچھ کو نہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ ہر امتی کی حضورﷺ شفاعت فرما ئیں گے؟ جب کے حضورﷺ فرما رہے ہیں کہ مسلمان سب کچھ ہوسکتا ہے، مگر جھوٹا نہیں، پھر آگے چل کرطویل فہرست ہے۔ وعدہ خلاف ہم میں سے نہیں۔ ذ خیرہ اندوزی کر نے والا ہم میں سے نہیں کم تو لنے والا ہم میں سے نہیں۔ہم اب رمضان مبارک میںداخل ہوچکے ہیں بتائیے ان میں سے کون سے کام ہم نہیں کر رہےہیں۔ مسجد یں بھری ہوئی دوسری طرف گودام بھی بھرے ہویئے ہیں نماز پڑھ رہے ہیں روز ہ رکھ رہیں۔ انہیں ترازؤں میں تول رہے ہیں جن کے ایک پلڑے میں نیچے سکے لگے ہوئے ہیں؟ نفع دگنا تگنا لے رہے ہیں۔ جبکہ ہمیں جائز نفع کمانے کی اجازت ہے؟ رشوت کے ریٹ بڑھ گئے ہیں اس لیئے کہ آفیسروں کے بھی بال بچے ہیں عید آرہی ہے بچوں کے کپڑے بنا نے ہیں۔ جبکہ رشوت دینے والا اورلینے والا دونوں جہنمی ہیں (باقی آئندہ)
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے