ہم نے گزشتہ مضمون میں بات کر تے ہوئے بتایا تھا کہ اسلام نے انسانیت کو بہت سی سہولتیں دی تھیں!اگر مسلمان اس پر عامل ہوتے تو مسلمانوں کی ہر بستی مدینہ منورہ جیسے لوگوں پر مشتمل ہوتی؟ چونکہ نہ کوئی مسلم ریاست ہے جہاں اسلامی نظام نا فذنہ ہو نہ کوئی بستی ہے نہ خود مسلمانوں کا اپنا وہ کردار ہے جو کہ کلمہ پڑھنے کے بعد ہونا چاہیئے، نتیجہ ظاہر ہے کے مسلمان خوداسلام کی بدنامی کا باعث ہورہے ہیں؟ اگر ہم اپنی زندگی میں اتنا اسلام نافذ کرلیں جتنا کر سکتے ہیں تو بھی بہت ہے اس لیئے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ دانا اور بینا ہے وہ سب کچھ جانتاہے ہم کہاں رہ رہے ہیں اور وہاں رہتے ہو ئے کیا کرسکتے ہیں اور کیا نہیں کر سکتے ہیں؟علماء کرام نے ان ممالک کو دد حصوں میں تقسیم کیا ہوا ہے۔دار اسلام اور حرب۔ دارالسلام اس وقت تو دنیا میں کہیں موجودنہیں ہے چونکہ سارے مسلمان نماز میں ً ادخلنا دار السلام ً کی دعا کر رہے ہیں اللہ سبحانہ کورحم آجا ئے اور وہ دارسلام پھر کہیں قائم کردے تب انشا اللہ اس پر بات کرنے کے ہم قابل ہونگے اور اس پ بات کریں گے؟ ابھی جو مو جود ہیں یعنی دار الحرب ان پر بات کریں گے جبکہ ان کی صورت حال مسلمان مما لک سے مختلف ہے ان کہاں شہریت تقریباً بند ہے جہاں کھلی ہونا چاہیئے تھی جبکہ ِانہوں نے شہریت کے لیئے دروازے بلا تفریق سب پر کھول رکھے ہیں۔کچھ مجبوریاں دونوں جگہ یکساں ہیں مثلا ً آپ مجبور ہیں سودی کاروبار ہے۔ یہ وہ دور ہے کہ جس کے بارے میں حضورﷺ نے فرمایا تھاکہ ایک دور میری امت پر ایسا آئے گا کہ کوئی گھر ایسا نہیں بچے گاجس تک سود کا بھپارہ نہیں پہنچے “اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سود آپ کے لیئے حلال ہو گیا؟ حرام چیز حرام ہی رہے گی۔ آپ کو اجازت نہیں ہے کہ آپ بھی سود لینا شروع کردیں اس لیئے وہ حرام ہے؟ اور اسوقت تک یہ صورت جاری رہے گی کہ دنیا کو اپنی غلطی کا احساس نہ ہو جا ئے اور یہاں اسے برا نہ سمجھنے لگیں؟ جوکہ ایک دن انشا ء اللہ انسانیت سمجھے گی کیونکہ تمام الوحی مذاہب میں جہاں تک میرا علم ہے یہ جائز نہیں ہے۔ اسے مذہب میں تحریف کے بعد جائز کیا گیا ہے مثلاً افغانیوں نے اسی وجہ سے اپنے لئے سود لینا جائز کرلیاکہ ہندوستان دار الحرب تھا اور بقول ان کے وہاں سود لینا جائز تھا یہ فتویٰ ان کے پاس کہاں سے آیا مجھے معلوم نہیں مگر کہیں سے آیا ضرور ہوگا؟ جبکہ اب وہاں دو مسلمان ملک پاکستان اور بنگلہ دیش بن گئے ہیں۔ مگر انہوں نے اپنے فتوے سے رجوع نہیں کیااور تینوں جگہ اور بقیہ ہندوستان میں انکا کاروبار چل رہا ہے جو کہ سب سے زیادہ سود لیتے ہیں اور انکا سود در سود کا وہ سلسلہ ہے کہ بند نہیں ہوتا ہے۔ ھالانکہ شروع سے مذہب ایک ہی سا چلا آرہا ہے۔مسلمان کے یہاں کسی کا مال بھی ناجا ئز طریقہ سے کھانا حرام ہے؟اور تمام عمل صالح کی قبولیت کا دار و مدار رزق ِ حلال پر ہے۔اگر رزق حلال نہیں ہے تو ایک حدیث مبارک میں حضور ﷺ کا فرمان یہ بھی ہے کہ وہ جسم جنت میں نہیں جا ئیگا جب تک اسے دوزخ میں جلانہ دیا جا ئے۔ دوسری چیز سچ بولنا ہے جبکہ جھوٹ جو ہے وہ تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ لہذا تقویٰ جس کا حصول ہرمسلمان کا مقصد حیات ہے اور اللہ سبحانہ تعالیٰ نے قر آن میں اس ماہ رمضان میں روزہ رکھنے مقصد بھی یہ ہی بتایا ہے کہ روزے اس لیئے فرض کیئے گئے ہیں کہ تم متقی بن جاؤ اتنی ہی زیادہ برائیاں تاجر اس مہینے میں کرتے ہیں۔ ایسے تاجروں کو حضورﷺ نے ایک حعدیث ِ پاک میں فاسق اور فاجروں میں شمار کیا ہے۔ تقویٰ جبھی حاصل ہو سکتا ہے۔ کہ ان دونوں برائیوں سے دور ہا جائے اور ہر وقت اللہ سے بندہ ڈرتا رہے۔ پیشہ تجارت کو یہ بھی عظمت حاصل ہے کہ حضور ﷺ کا پیشہ تجارت تھا۔ لہذا انہوں نے فرمایا ہے کہ تمام ہاتھ کی کمائیوں میں اپنے ہاتھ کمائی سب سے بہتر ہے اور ان میں بھی سب سے بہتر پیشہ تجارت ہے۔ ایماندار تاجروں کا مقام قیامت کے دن عادل بادشاہ، صدیقوں کے ساتھ عرش نیچے ہوگا۔ بشرطِ تجارت پاک صاف ہو۔ حضورﷺ نے فرمایا دیکھو! تم ان قوموں کی طرح مت ہوجانا جو کم تولتی تھیں اور تباہ کر دی گئیں۔ حضورﷺ اکثربازار کا بھی دورہ فرماتے تھے ایک شخص کی گندم بارش سے بھیگ گئی تھی۔اس نے ڈھیر کے نیچے چھپایا ہوا تھاحضور ﷺ نے فر مایا کہ تم کو اسے اوپر رکھنا چا ہیے جس چیز میں نقص ہوتو بتا کے فروخت کرو جو چھپا ئے وہ ہم میں سے نہیں ہے؟ شاید وہ کوئی ایسے صاحب تھے کہ جنکو معلوم نہیں تھا کہ تجارت میں ہیر پھیرحرام ہے۔ اور ان کو حضورﷺ نےفاسق فاجر کہا ہےاور خبردار فرمایا ہے کہ ایسے تجار جہنم میں ہونگے؟ اب یہ تاجروں کا کام ہے کہ وہ ایمانداری سے تجارت کر کے اپنی جگہ کہاں بنا نا چاہتے ہیں؟ اللہ اور رسول اللہ ﷺ نے سب کچھ بتاکر خبر دار کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں تو فیق اور ہدایت دے (آمین)
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے