اسلام دین معاملات ہے(23)۔ شمس جیلانی

اسلام اور رشوت۔اسلام نے رشوت کو قطعی حرام قرار دیا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر سے ؓ روایت ہے کہ حضور ﷺ نےرشوت لینے والے اور رشوت دینے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔(ابو داود، مسلم)جبکہ اس میں حضرت ثوبان ؓ نے اضافہ کیا ہے کہ جو ان دونوں میں معاملہ طے کرائے اس پر بھی لعنت ہے(ابوداود۔مسلم) ایک اور حدیث میں اس کو ملعون بھی کہا گیا ہے۔حضورﷺ کے زمانہ یہ قطعی حرام رہی نہ کسی دی نہ کسی نے لی لیکن بعدمیں فقہائے کرام اس کو اس کے لیئے جائز قرار دیدیا کہ جو مجبور ہو وہ دے سکتا ہے۔ اس سلسلہ میں ایک صاحب نے ایک آرٹیکل لکھا ہے اس میں انہوں نے حضرت خالد سیف اللہ رحمانی نے جائز قرار دیتے ہوئے جو وجہ بتائی ہے وہ اس قابل نہیں ہے کہ میں اس کو نقل کروں؟ اس لیئے نہیں کر رہا ہوں مگر اس سے یہ بات ظاہر ہوتی کہ وہاں تحریف کرتے ہوئے کس حد تک لوگ گئے ہیں۔میں نے حضور ﷺ کی پوری سیرت لکھی ہے ظاہر ہے کہ مجھے بہت سی سیرتوں کا مطالعہ کرنا پڑا، مگر مجھے وہ کہیں نظر نہیں آئی جبکہ دار العلوم دیوبند نے ان کے آرٹیکل مولانا غفران کےآرٹیکل شاید بغیر پڑھے ہوئے ایک فتوے کی شکل میں رشوت کے سلسلہ میں مولاناغفران ساجد قاسمی، حی النسیم، ریاض سعودی عرب کے حوالے سے بیان ہوئی جن کا ای میل اڈریس مندرجہ ذیل ہے۔ غالباً یہ نظریہ ضرورت کے تحت اضافہ ہے جس میں میڈیا سے متعلق لوگوں کو خوش کرنے کے لیئے جو داد دہش کیجا تی ہے اس کی ایک بنیاد بنادیاگیا ہے ۔ البتہ مجھے یہ معلوم ہے کہ پاکستان میں شروع سے لیکر ایک اخبار کو بے انتہا نوازا گیا ہرحکومت نے اسے خوش رکھنے کے لیئے کسی نہ کسی شکل میں خراج پیش کیا۔ یہ تو تھی وہ صورت حال جومیں نے یہاں ریکارڈ کو صحیح رکھنے کے لیئے بیان کردی۔حضورﷺ کےزمانے ایک صاحب کامعاملہ پیش ہوا کہ انہوں نی واپس آکر بیعت المال کی رقم تھی پیش کی اور فرمایا کہ یہ بیعت الما ل ہے۔ اور مجھے یہ تحائف ملے ہیں۔ حضور ﷺ نےناراضگی کا اظہار فرماتے ہوئے فرمایا کہ “ یہ ماں یا باپ کے گھر بیٹھاہوتا تو اسے کوئی دینے آتا ً ًاور تحائف بھی بیت المال میں داخل کردیئے اس کے بعد سے ذرا سا بھی کسی کو شبہ بھی ہوا تو یہ روایت رہی کہ اس کو بیت المال میں جمع کرادیا گیا۔ اس وضاحت کے بعد اب رشوت بات کرتے ہیں۔

از: مولانا غفران ساجد قاسمی‏،حی النسیم، ریاض، سعودی عرب
gsqasmi99@gmail.com

آج دنیا رشوت ایک ایسا ناسور ہے۔کہ شعبہ زندگی میں سراہیت کر چکا ہے؟اس سلسلہ میں قرآن کی بھی ایک آیت سوری بقر میں188ہے۔ جس کااردو ترجمہ میں پیش کر رہا ًایک دوسرے کامال ناحق ناکھایاکرو،نہ حاکموں کو رشوت پہنچا کر کسی کامال اپنا کرلیا کرو،حالانکے تم جانتے ہو ً

اس آیت اور اوپر کی بیان کردہ دو احادیث کے بعد کسی مسلمان کے لیئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ رشوت لے یارشوت دے؟صرف وہی ایک سہولت ہے جو کہ مجبوری میں جس طرح حرام چیز کراہیت کے ساتھ وقتی طور پر حلال ہوجاتی وہ رشوت دے سکتا ہے جس کا جائز حقہے مگر نہں مل رہا ہے۔ لیکن لے کوئی نہیں سکتا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ غیر ترقی یافتہ ملکو ں میں اپنا جائز حق بغیر کچھ لیئے دیئے حاصل نہیں کوئی نہیں کرسکتا حتیٰ کہ ریٹائر منٹ کے بعد نصف پینشن ملتی ہے۔نصف رشوت میں چلی جاتی ہے۔ ایسی صورت ِ حال میں لینے والے اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتے اور وعید بھی سنتے ہیں مگر چھوڑتا کوئی نہیں ہے؟ شاید وہ سمجھتے ہوں یہ کسی اور کے لیئے کہا جارہا ۔ نہ وہاں کسی کا گھر محفوظ ہے نہ کسی کی عزت محفوظ ہے۔ قبضہ گروپ بنے ہوئے ہیں۔ ہزاروں ایکڑ رقبہ قبضہ گروپ کے قبضے ہےمیں ہے جن میں مولوی حضرات کے نام بھی آتے ہیں۔ کوئی کسی کو کہے کیا سکتا ہے جب کے وہی کام وہ خود بھی کر رہا ہے۔ مذہب مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ اسلام کہہ رہا حرام حرام ہے؟ مگر علماء مجبوری کی بنا پر فتوے پر فتوے دے رہے ہیں کہ“ حلال ملتا ہی نہیں ایسا مال جس میں حلال کا غلبہ ہو وہ بھی مساجد میں لگایا جاسکتا ہے؟ جبکہ غلبہ شرط ایسی ہے کہ کسی مالدار شخص کہیں گے کہ ہمیں اپنے کھاتےدکھادو تاکہ ہم مطمعن ہوجا ئیں کے حلال کا غلبہ ہے؟ تو ہم مسجد کے لیئے تمہاری رقم لے سکتے ہیں۔ وہ بجائے ان کی مدد کرنے کے دھکے مار کے دکان سے یا خارخانے سے باہر نکال دے گا۔ پھر نہ مسجد بنے گی نہ جومساجد ہیں وہ جاری رہ سکیں گی۔ نہ مولوی صاحب کی تنخواہ ملیگی۔ تو سارا مذہبی کاروبار بھی ٹھپ ہو جا ئے گا۔ لہذا وہ بیچارے ان کے حق میں فتوے دینے پر مجبور ہیں؟ اب بتلا ئے ہم بتلائیں کیا؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles, Islam is a religion of affairs. Bookmark the permalink.