اسلام دین معاملات ہے(24)۔ شمس جیلانی

ہمارے معاشرے میں سفارش ایک ایسی چیز ہے جس کو حضورﷺ نے برا بھی فرمایا ہے اور اچھا بھی فرمایا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ ہتھیاروں کی مثال ہے کہ اگر وہ اپنی حفاطت کے لیئے رکھے جائیں یا جہاد کے لیئے رکھے جا ئیں تو وہ اچھی چیز ہیں۔لیکن وہ کسی کے قتل میں استعمال ہو تو بری چیز ہے؟ لہذا اسکے حق میں اور مخالفت میں دونو طرح کے پہلو ہیں؟ اور ان پر تفصیلی بات کرنا ضروری ہے۔وطن عزیز میں ہم نے دیکھا کہ اس کا استعمال برائی میں میں بھی ہے اورچھائی میں بھی ہے۔مگر برائی کے مقابلے میں بھلائی میں بہت کم ہے۔ برائی کی حالت یہ ہے کہ اس کے اور رشوت کے بغیر وہاں کوئی کام نہیں ہوتا ہے۔ البخاری سفارش کرو تمہیں اجر حاصل ہو گا اللہ اپنے رسولﷺکی زبان سے جو چا ہے فیصلہ کرواتا ہے۔ ابوداود394۔سفارش کرنے کی رشوت لی تو بہت بڑا گناہ کیا۔

یہاں یہ جو ہم نے دو احادیث پیش کی ہیں ان میں سے پہلی صحیح البخاری کی حدیث ہے اس کے پیچھے جو مثال ہے وہ یہ ہے اسلام سے پہلے عربوں میں قبیلہ پرستی اپنے عروج پر تھی جس کو اسلام نے آکر ختم کرنا چاہا تو مدینہ منورہ کا ایک قبیلہ پھر بھی باز نہ آیا۔ ان کے ایک آدمی نے آٹے کی بوری چوری کی جوکہ پھٹی ہوئی تھی اور اس کے گھر تک آٹا گرتا ہوا آیا چوری پکڑی گئی، تو اس نے یہ کیا کہ اپنے گھر سے آگے ایک یہودی کے گھر تک آٹا گرادیا اور اپنے قبیلے والوں کو بلا کردکھا یاتاکہ اس کی جگہ وہ پکڑا جا ئے؟ اہلِ قبیلہ اس کی حمایت میں حضور ﷺکے پاس آگئے۔لیکن دریں اثنا اللہ سبحانہ تعالیٰ نے حضور ﷺکو وحی کے ذریعہ خبردار کردیا،حضور ﷺ نے یہودی کو بری کر کے فیصلہ اصل مجرم کے خلاف کر دیدیااورحضورﷺ سخت ناراض ہوئے اور فرمایا تم جوکچھ بناکے لے آؤگے میںﷺ انسان ہوں غلط فیصلہ کرسکتا ہوں؟جو تمہیں سخت گناہ کا مرتکب کردیگا۔ میں ﷺمنتظر رہتا ہوں کے تم اپنے بھائی کی سفارش کرو ،مگر اس کی جس میں بھلائی ہو وہ نہیں جس میں برائی ہو جس کی وضاحت ابو داود والی حدیث میں ہے۔ اس کے بعد لوگ سمجھ گئے کہ اپنے قبیلے کی جا اور بے جا حمایت کرنا ظالم کا ساتھ دینا ہے؟ جبکہ اسلام مظلوم کی سفارش کرنے کی اجازت تو دیتا ہے مگر ظالم کی نہیں ۔اسی کی روشنی میں تاریخ میں اک دکا اللہ والے بھی ملتے ہیں جو حکام سے تعلقات رکھتے تھے کہ لوگوں کے کام کرائیں۔ مگر اولیاء اللہ کی اکثریت اس کے خلاف رہی عموماً بادشاہوں کی ان سے ٹھنی رہی۔ اب جو عالم ہے وہ یہ ہے کہ ہر شخص اپنے گروہ کے ساتھ جاتا ہے یاقبیلے ساتھ جاتا ہے۔قبضہ گروپ بنے ہوئے ہیں وہ دوسروں کی جائداد پر قبضہ کرنے میں مدد دیتے ہیں حتیٰ کہ بہت سے لوگ پیروں کے مرید اس لیئے بنتے ہیں کہ ان کے فون اس کار خیر میں ان کی مدد کرتے ہیں۔ بعض اوقات تو ایسا بھی ہوتا ہے۔ ایم این اے یاایم پی اے کے پاس کوئی شکایت لیکر آیا تو اپنے ہی آدمی کے لیئے کہہ دیتے ہیں تھانیدار کو، کے اسے بند کردو، وہ حوالات میں بند کردیتا ہے؟ جبکہ اس کے لواحقین دوڑے آتے ہیں اور کہتے ہیں وہ میرا بھائی یا بیٹا ہے تو پھر فون کرتے ہیں یہ تو میرا آدمی ہے اس کو چھوڑ دو اور فر یادی کو بند کردو؟ کیونکہ حلقے بہت بڑے ہیں لاکھوں آدمیوں پر مشتمل ہیں وہ انکے نام بھی نہیں جانتے ہیں۔ جبکہ حال پیروں کا اس سے بھی برا ہے؟ کسی کے پچیس لاکھ مرید ہیں کسی کے اٹھارہ لاکھ مرید ہیں۔ وہ جس کی زمین پر قبضہ کر لیتے ہیں ان کے مقابلہ میں فریادی کی کوئی فریاد نہیں سنتا کہ پیر کی چٹھی یا فون آجاتا ہے۔ اگر کوئی زیادہ گڑ ڈالے تو پیر کاخلیفہ بھی آجاتا ہے۔ یہ ہی حالت سرکاری ملازمتوں میں ہے کہ نا اہلوں کو وہ ملتی ہیں، اہل دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ اپنی 92 سالہ زندگی میں نے صرف ا یک آدمی دیکھا جو دین پر عامل تھا۔ ان کے بیٹے نے اپنی ملازمہ کو قتل کردیا؟ انہوں نے انکار کردیا کہ میں اس کی کوئی مدد نہیں کرونگا کیونکہ یہ ظالم ہے؟اس بچہ کی ماں جوکہ ڈاکٹر تھی دوڑتی پھری بیٹے کی محبت میں اثراور رسوخ استعمال کیا مال خرچ کیاوہ بری ہوگیا۔ وہاں کی پوری زندگی میں ان کے سوا کوئی دوسرا ایسا مسلمان مجھے نہیں ملا؟ ہر چھوٹے سے چھوٹے معاملہ میں بے ایمانی ہوتی ہے نا انصافی ہوتی ہے غریبوں کے بچے اپنی ذہانت کے باوجود پہلی تو کیا دوسری اور تیسری پوزیشن بھی نہیں لے سکتے ہیں۔ جبکہ بڑے لوگوں کے والدین اپنا اثر رسوخ اور پٹرول (گیس) خرچ کرکے اپنے کند ذہن بچے پوزیشن کے ساتھ پاس کروادیتے ہیں۔ اس طرح وہ سفارش کرکے بجا ئے ثواب کے خود کو جہنم کا ایندھن بنا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت آمین۔

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles, Islam is a religion of affairs. Bookmark the permalink.