ہم گزشتہ ہفتہ سلام پر بات کر رہے تھے۔اسی پر آگے بڑھتے ہیں۔حضرت ابن ِ عباسؓ فرماتے ہیں کے میرے نزدیک خط کا جواب دینا اسی طرح ضروری ہے(ادب المفرد) اس کی روشنی میں میرے خیالل میں چونکہ آج کے دور میں اور بھی بہت سے ذرائع خط وکتابت کے علاوہ موجود ہیں،ان سب کا جواب دینا ہر مسلمان کا جہاں تک اس سے ہوسکے سنت ہےانہیں جواب دینا چاہئے۔ حضور ﷺ کو جس کسی نے بھی خط لکھا اس کو انہوںﷺ نے جواب سے نوازا حتیٰ کہ مسلمہ کذاب جیسے نبوت کے جھوٹے دعویدار کو بھی جواب دیا جو ان ﷺکی سیرت پر لکھی جانے والی کتابوں میں موجود ہے۔جواب دینے سے ایک تو آپ کی انکساری ظاہر ہوتی، دوسرے آپ کے اخلاق حمیدہ کا پتہ چلتا ہے۔ جس کے بارے میں حضورﷺ نے فرمایا کہ وہ میرے نزدیک بہت اچھا ہے جس کا اخلاق اچھا ہےًجواب نہ دینے کی صورت میں قباحت یہ ہے کہ اس سے آپ کاتکبر ظاہر ہوتا ہے جو سوائے اللہ کے کسی کو زیب نہیں دیتا۔ جس کے بارے حضور ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ً کہ کبر میری چادر ہے جس نے اس میں پیر ڈالنے کی کوشش کی میں اس کو ذلیل کردونگا ً یہ بہت بڑی وعید ہے۔اور اس سے بداخلاقی بھی ظاہر ہوتی ہے۔
ایک دوسری حدیث میں حضو ﷺ کا ارشاد ِ گرامی ہے کہ تم جنت میں نہیں جاسکتے جب تک کہ مومن نہ بنو، اور تم مومن نہیں بن سکتے جب تک تم ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔ میں تمہیں وہ تدبیر کیوں نہ وہ تدبیر بتاؤں جو تم ایک دوسرے محبت کرنے لگو۔ آپس میں سلام کو پھیلاؤ (بہیقی، مشکواۃ)
حضورﷺ کا ارشاد ِ گرامی ہے کہ جب کوئی شخص مسجد میں پہنچے تو سلام کرے اور اگر بیٹھنے کی ضرورت ہو تو بیٹھ جا ئے اور پھر جب چلنے لگے تو سلام کرے۔اس لیئے پہلی مرتبہ کا سلام کرنا دوسری مرتبہ کے سلام کرنے سے بہتر نہیں ہے یعنی دونوں سلام مسنون ہیں (تر مذی۔مشکواۃ) ایک اور حدیث میں فرمایا کہ ًغریبوں کو کھانا کھلاؤ اور ہر مسلمان کو سلام کرو چاہے اس سے جان پہچان ہو یانہ ہو ً(مسلم۔بخاری) حضرت انس ؓ راوی ہیں کہ حضور ﷺ نے ان سے ارشاد فرمایا کہ اے میرے بچے جب تم گھر میں داخل ہوا کرو تو پہلے گھرو الوں کو سلام کرو۔ یہ تمہارے اور تمہارے گھر والوں خیر اور برکت کی بات ہے(ترمذی)
حضورﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ جو شخص تو اس کو سلام کرے، درمیان میں کوئی چیز حائل ہو جا ئے جیسے درخت یا دیوار، پتھر وغیرہ پھرتو جیسے ہی سامنے آئے سلام کر ((زاد الصالحین ۔ زاد امعاد)
سلام میں تشبہ۔حضرت عمر ؓ بن شعیب ؓنے اپنے والد سے اور وہ دادا سے روایت کر تے ہیں کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص دوسری قوموں کے ساتھ تشبہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔اس کی وضاحت یہ فرمائی کہ یہودیوں کی شبا ہت نہ اختیار کرو،نہ نصاریٰ کی کیونکہ یہودی انگلیوں کے اشارے سے سلام کرتے ہیں او رنصارایٰ ہتھیلیوں کے اشارے سے سلام کرتے ہیں (ترمذی)
سلام کے حقوق۔مسلمان، مسلمان سے ملے تو اس کو سلام کرنا چاہیئے۔چلنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام کرے۔ کم تعداد بڑی تعداد کو سلام کرے۔ چھوٹا بڑے کو سلام کرے۔ اشا رے سے سلام کر نا جائز ہے جب مخاطب دور ہو۔زور سے سلام کرنا کہ مخاطب سن لے(الادب المفرد)
مصافہ اور معانقہ۔ اس میں بڑا اختلاف ہے۔حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص کو میں نے کہتے سنا کہ وہ حضورﷺ سےدریافت کررہا تھاکہ ً جب آدمی اپنے دوست یا بھائی سے ملے جبکہ وہ سفر سے آیا ہو تو کیا اس کے سامنے جھک جائے؟آپﷺ نے فرمایا نہیں۔اس نے پوچھا کیا اس کے ساتھ معانقہ کرے،اس کو بوسہ دے آپﷺ نے فرمایا نہیں۔اس نے کہا کہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے اور اس کے ساتھ مصافحہ کرے حضور ﷺ نے فرمایا ہاں (ترمذی) جبکہ حضور ﷺ کی سیرت کی کتابوں میں یہ واقعہ ہے کہ جب کہ جب حضرت جعفر بن علی ؓ حبشہ سے تشریف لا ئے تو انہوں ﷺ نے انؓ سے معانقہ کیا اور ان کے ماتھے پر بوسہ دیادیا۔ ہم کراچی میں مسجد الفلاح کے سامنے پی۔ سی۔ اییچ۔میں رہتے تھے۔ وہاں کے امام صاحب بنوریہ ٹاؤن کی درس گاہ میں پڑھاتے بھی تھے۔ وہ مصافحہ کو حرام بتاتے تھے۔ محلے والے تو جانتے تھے وہ مصافحہ نہیں کرتے تھے۔لیکن کوئی نیا پھنس جا تا تو اس کی خیر نہیں تھی وہ اس کی جان کو آجاتے تھے؟ جیسے ہی وہ مصافحہ کے لیئے فجر کی نماز کے بعد منبر کی طرف بڑھتا لوگ تماشہ دیکھنے کو تیار ہو جاتے کہ مارا، اب شیر نے پنجہ تھے؟ ماشا اللہ تھے بھی بڑے لحیم شحیم آدمی اس کو جان چھڑانامشکل ہو جاتی یہ تھی اس سلسلہ میں شدت پسندی کی انتہا۔(شمس)