بیٹاتو ہی ہارجا ؟ورنہ یتیم ہوجائے گا؟۔۔۔از۔۔۔ شمس جیلانی

بہت پرانی بات ہے کہ ایک سینما کے مالک کو ہم قرضہ دیکر پھنس گئے! گوکہ ہم نے بچپن سے ہی عہد کرلیا تھا اور اللہ سبحانہ تعالیٰ سے دعامانگی تھی کہ اللہ ہمیں وہ شوق ہی نہ دے جس کی بنا پر ہمارے والد صاحب ہم سے ناراض ہوں، مگر ہمیں مجبوراً کچھ فلمیں دیکھنا پڑیں اور عہد توڑنا پڑا۔ قصہ یہ تھا کہ اس زمانہ میں نہ تو ریڈیو تھے نہ ٹی وی نہ آج والی جدید ایجادات لے دے کر سینما تھے وہ بھی خاموش ا نہیں دیکھ سکتے تھے پردہ سیمیں پر متحرک تصاویر نظر آتیں، ہونٹ ہلتے نظر آتے ،رہی تفہیم وہ اپنے تجربہ اور ظرف کے مطابق ہر ایک خود ہی کرلیتا تھا۔ اس لیے کہ اس وقت قوت گویائی نہ ہونے کی وجہ سے وہ تھرکتی پر چھایاں تردید کرنے پر قادر نہ تھیں، بہت عرصہ کے بعد سائنسدانوں نے اپنی ایجادات  کومزید نکھار کر اسے قوتِ گویائی عطا کی؟
اسی زمانہ کی بات ہے کہ ہم سینما کے باہر پوسٹر دیکھ کرجو ہمیں کہیں بھی جائیں راستے میں پڑتا تھا اس میں ہم نے کسی اسلامی تاریخ سے ماخوذ فلم کاپوسٹر دیکھا،  چونکہ ہمیں بچپن سے ہی اسلامی تاریخ میں بڑی دلچسپی تھی، بہت متاثر ہوئے اور والد صاحب سے درخواست کربیٹھے کہ ہم یہ فلم دیکھنا چاہتے ہیں ! جواب ملا کہ شرفا فلم نہیں دیکھتے ہیں؟ اس پرہم نے عہد کیا کہ ہم آئندہ فلم نہیں دیکھیں گے۔
مگر بدقسمتی کہ پاکستان بننے کے بعد جب ہم ہجرت کرکے وہاں پہونچے تو ایک سینما مالک کے چکر میں آگئے؟ آپ اس سے سمجھ سکتے ہیں کہ سینماکا مالک کیا ہوتا چیز ہوتا ہے؟ حالانکہ ہم انہیں کالموں میں پہلے بھی یہ واقعہ کئی دفعہ رقم کرچکے ہیں جس میں بہت ہی واضح سبق موجود ہے کہ اس سے بچو! کہ وہ عہدوں اور قسموں کے توڑنے پر مجبور کردیتا ہے اور خود یہ کہہ کر بات ختم کردیتا ہے کہ عہد قرآن و حدیث تھوڑی ہیں ؟ مگر ہمارے یہاں اپنے بزرگوں سے سبق لینے کا رواج ہی نہیں ہے ؟اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہمارے بزرگوں کی ابتدائی معلومات پر جنہوں نے فائدہ اٹھایا وہ اس پرمزید تحقیق کرکے محل کھڑے کرچکے ہیں جبکہ ہم واپس چرخے کے دور میں چلے گئے ۔ ہم تو کسی گنتی میں ہی نہیں ہیں وہ سب تو اپنے اپنے دور کے چاند اور سورج تھے ان کے تجربے سے کسی نے فائدہ نہیں اٹھایا ۔  جبکہ ہم ایک ذرہ بھی نہیں ہیں؟ لہذا ہمارے تجربے سے بھی کسی نے فائدہ نہ اٹھایا اور پوری قوم ایک سینما کے مالک کے چکر میں آگئی اور آج تک نہیں نکلی اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں تصویریں تو بہت دکھائی دیتی ہیں لیکن اگر چھونے کی کوشش کریں تو دیوار سے انگلیاں جا ٹکراتی ہیں اور چھونے والا نادم ہوکر وپس آجاتا ہے۔
۔یہ بات یونہی بیچ میں آگئی۔ ہم بات اپنی کر رہے تھے کہ پہونچ کہیں سے کہیں گئے؟ اس سے وصولی کا طریقہ یہ تھا کہ ہر مرتبہ نیا جوتا خرید تے اور جب اس کی تلی گھس جاتی تو وہ کہتے کہ ہم نے قرض خواہوں کی باری لگائی ہوئی آج آپ کی باری ہے جو آج ٹکٹوں کی فروخت سے رقم ملے وہ آپ لے جائیں؟ لہذا مجبوراً پوری فلم ہمیں دیکھنا پڑتی اس میں کئی فلمیں دیکھنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اس میں ایک پنجابی فلم بھی تھی جس کا نام اب یاد نہیں کیونکہ وہ آج سے ساٹھ سال پہلے دیکھی تھی مگر اس میں کہانی کا ایک حصہ قابل ِ ذکر تھا کہ کسی بات پر دوپارٹیوں میں لڑائی ہوگئی ان میں سے ایک کا بیٹا موٹا تازہ تھا، مگر اس کے برعکس اس کا باپ لاغر تھا، جبکہ دوسرے کا بچہ لاغر اور اس کا باپ موٹا تازہ تھا؟ اس نے چیلنج کردیا کہ اس کا فیصلہ اس پرہوگا کہ اگر میرا بچہ تیرے بچے سے ہار گیا تو فائینل کے طور پر میری اور تیر ی کشتی ہوگی ؟دونوں بچے اپنے ، اپنے داؤں پیچ دکھا رہے تھے اور باپ اپنے بیٹے کے آگے ہاتھ جوڑ ، جوڑ کر کہہ رہا تھا بیٹا تو ہی میری خاطر ہار جا ؟ ورنہ اس کا تو کچھ نہیں بگڑیگا البتہ تو یتیم ہوجائے گا؟
بالکل یہ ہی صورتَ حال ہم نے آجکل اپنے ملک پاکستان میں دیکھی کہ جوکو ئی بھی با ضمیر کبھی غلطی سے آجا تا ہے اور تھوڑا دم وخم دکھاتا ہے ،کچھ امید بندھتی ہے !عوام خوش ہونے لگتے ہیں کہ اب ہمارے دن پھر نے والے ہیں، تبھی کوئی جمہوریت کا چمپین ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوجاتا ہے کہ ساتھیوں مان جاؤ؟ ورنہ جمہوریت ختم ہوجائے گی اور تم سب سیاسی طور پر یتیم ہو جا ؤگے؟ چونکہ باضمیر اپنے سے پہلے گزرنے والے باضمیروں کا حشر دیکھ چکے  ہیں اورہیں بھی بال بچے دار، جبکہ ایک طرف جنت ہے اور دوسری طرف خندق !تمام کس وبل دیکھتے ہی دیکھتے نکل جاتے ہیں جیسے کہ غباروں میں سے ہوا نکل جاتی ہے؟ کیونکہ ایک آدھ پھکڑ لیڈر کی طرح سب تو چھڑے چھانٹ اور سیلف میڈ نہیں ہیں۔ بلکہ زیادہ تر خاندانی لوگ ہیں جو سونے کا چمچہ لیکر پہلے ہی پیدا ہوئے ہیں اور ان میں سے ہیں ، جنہیں کانسٹی ٹیونسی اورسیاست وراثت میں ملتی ہے۔ جبکہ عوام پھر سوچنے لگتے ہیں کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کسی اچھے انسان کو بھیج دے گا ،؟ اور پھر وہی تجربہ دہرانے لگتے ہیں ؟ جب کہ اس کے اس سبق کو بھول جاتے ہیں کہ نصرت الٰہی کے لیئے اس کے اپنے کچھ اصول ہیں؟ مشکل یہ ہے کہ وہ نبی (ص) کا اسوہ حسنہ میں ملتے ہیں!جس میں قرآن ، ہمہ اقسام کی وحی اور سنت شامل ہے۔ مگر قوم کے پاس اس پر عمل کی بات تو چھوڑیں، اسے پڑھنے کا بھی وقت نہیں ہے۔ ہر طرف شدت پسندی کا دور دورہ ہے جبکہ قرآن سورہ نحل کی آیت نمبر 9 میں کہہ رہا کہ ” اللہ تک پہونچنے کا راستہ میانہ روی میں ہے ” رہے اہلِ اقتدار انہیں اس سے زیادہ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ جبکہ لوگ اسی میں خوش ہیں اور اسی تنخواہ پرکام کرنے کو تیار بھی۔ یہاں تک کہ اب پانی پر بھی انہوں نے اجارہ داری قائم کرلی ہے۔ جو تعمیرات سے بچتا ہی نہیں ہے کہ عوام کے ہونٹوں تک پہونچے؟ زندہ تو زندہ مردوں کو بھی میسر نہیں ہے کہ وہ اسے غسل دیکر سپرد ِ خاک کر سکیں ؟

 

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.