کوئی بولے نہ بولے، لفافہ بولتا ہے از ۔۔۔شمس جیلانی

ایک زمانے میں قیافہ شناسی بہت بڑا فن تھا اور ایک شاعر نے یہاں تک کہدیا کہ خط کا مضموں بھانپ لیتے ہیں لفافہ دیکھ کر؟ اس میں بھی ایسے ماہرِ فن موجود تھے جسے جاننے والے لفافہ دیکھ کرخط کا مضمون پڑھ لیتے تھے۔ یہ اپنی، اپنی مہارت کی بات ہے۔ بعض لوگ پوری زندگی گنواں دیتے ہیں مگر کچھ بھی نہیں بنتے اور کچھ ایسے ہیں کہ چاہیں تو ہتھیلی پر سرسوں جمادیں جیسے کہ پاکستان کا ایک خاندان کہ وہ چاہیں تو زنک آلود لوہا پکڑلیں اور وہ سونا بن جاتا ہے؟کوئی یقین کر سکتا ہے کہ “ ایک ناکام تھریشر“ کی “غازی تھریشر“ کے ہاتھوں شکست کے بعد دیکھتے دیکھتے ان کے کارخانوں کی قطاربن جا ئے گی۔ اگر وہ اپنے اس خاندانی راز میں دوسرے پاکستانیوں کو فی سبیل اللہ شریک کرلیں تو ہر پاکستانی کم از کم ایک کارخانے کا مالک توبن ہی سکتا۔ اب ا نہوں نے اتنا کچھ تو جمع کرلیا ہے! مزید جمع کرکے کیا کریں گے۔ یہ راز قوم کوبتا کراس کا بھلا کر دیں ۔ تو یہ اتنا بڑااحسان ہوگا کہ جو بھی اس پر عمل کریگا وہی ان جیسا ہو جا ئے گا اور بیس کروڑ عوام دعا دیں گے۔
ایک صاحب اور بھی بہت تیزی سے پاکستان میں بڑھے مگر ان کا میدان کارخانے لگانا نہیں بلکہ بستیاں بسانا تھا؟ لیکن انہوں نے ساتھ ہی ساتھ عوام کے لیئے اپنے خزانوں اور دسترخوانوں کے منہ کھولدیئے؟ اوروہ قیمتی راز بھی ٹی وی پر بتا دیا جس کی وجہ سے وہ وہاں کامیاب رہے کہ“ جہاں فائل رکتی ہے وہ اس کو پہیے لگا دیتے ہیں“ !حالانکہ کے یہ راز سب کو پہلے سے پتہ تھا اور اس پر سب عمل پیر ا بھی تھے؟ فرق اتنا سا تھا کہ دوسرے“ حاتم طائی “اس لیے نہیں بن سکے کہ وہ مل بانٹ کر نہیں کھاتے تھے ،سارا منافع خود ہی رکھ لیتے اگر وہ ان سے سبق لیں کچھ عوام پر بھی خرچ کریں تو وہ بھی حاتم طائی کہلاسکتے ہیں؟
آپ نے دیکھا کہ لوگ کہاں سے کہاں پہونچ گئے؟ جبکہ عوام اور کچھ خواص صرف اسی کام میں ا پنا وقت ضائع کررہے ہیں کہ ان کے پاس یہ پیسہ آیا کہاں سے؟ حالانکہ کسی کی پگڑی اچھالنا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ اگر کسی صاحب کو میری بات کایقین نہ ہو تو کسی مولوی صاحب سے جاکر پوچھ لیں کہ کسی بھائی کا پردہ رکھنا اچھا ہے یا پگڑی اچھالنا؟ “ان کا جواب یہ ہی ہوگا کہ پردہ پوشی اچھی چیز ہے۔“ اوراسی میں سبکی بھلائی اور خیر ہے۔ اگر اس معاشرے میں کسی اکا ،دکا پائے جانے والے ا یمااندار کی بھی، آپ عوام میں مثال دیں تو وہ یہ ہی جواب دیں گے کہ اسے موقع نہیں ملا ہوگا ؟اسی وجہ سے ابھی تک ایماندار ہے۔ جیسے کہ آجکل لفافے والے صحافیوں میں اور غیرلفافے والے صحافیوں میں واضح فرق نظر آتاہے کہ وہ کس طرح حقائق سے آنکھیں بند کرلیتے ہیں یہ ا نہیں کا حصہ ہے؟ ایک تصویر کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ یہ کیسے لیک ہوئی؟ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ کیمرے کادور ہے یہ کیمرہ ٹرک بھی توہوسکتا ہے جوکوئی بھی مظلوم بننے کے لیے دو تصویروں سے تیسری تخلیق کرا سکتا ہے؟

 

 

 

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.